1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: سرکردہ وکیل ٹویٹ کی وجہ سے توہین عدالت کےمجرم

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیونیو، بھارت
14 اگست 2020

بھارتی سپریم کورٹ نے ملک کے سرکردہ وکیل پرشانت بھوشن کو ججوں کے بارے میں ان کی ایک ٹویٹ پر توہین عدالت کا قصوروار قرار دیا ہے۔ عدالت سزا کا تعین آئندہ ہفتے کریگی۔

https://p.dw.com/p/3gwtG
Indien Recht auf Privatsphäre- Anwalt Prashant Bhushan vor Oberstem Gerichtshof in New Delhi
تصویر: Reuters/A. Abidi

انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن اور معروف وکیل پرشانت بھوشن نے اپنی ایک ٹویٹ میں سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس اور چار دیگر سابق چیف جسٹس پرمبینہ نکتہ چینی کی تھی جس کے بعد عدالت نے اس کا از خود نوٹس لیا تھا۔ جسٹس ارون مشرا کی قیادت والی تین رکنی بینچ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت کے دوران پرشانت بھوشن کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کا یہ سنگین معاملہ ہے۔ عدالت اس بارے میں 20 اگست کو سزا کا تعین کرے گی۔ 

سن 1971 میں توہین عدالت سے متعلق جو ایکٹ منظور کیا گیا تھا اس کے مطابق پرشانت بھوشن کو توہین عدالت کے جرم میں جرمانے کے ساتھ چھ ماہ کی قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ لیکن قانون کے تحت اس بات کی گنجائش بھی ہے کہ اگر قصوروار اپنے بیان پر معافی طلب کرلے تو اسے معاف بھی کیا جا سکتا ہے۔

رواں برس 22 جولائی کو سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کی دو متنازعہ ٹویٹس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ بادی النظر میں ان ٹویٹس سے عدالتی نظام کی توہین ہوئی ہے۔ اس کے جواب میں پرشانت بھوشن کا کہنا تھا کہ ''آزادی فکر توہین عدالت نہیں ہوسکتی ہے۔'' لیکن اب عدالت نے اسے اپنی توہین قرار دیتے ہوئے انہیں قصوروار ٹھہرایا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا، ''ہماری رائے یہ ہے کہ ٹویٹر پر ان بیانات سے عدلیہ کی بدنامی ہوئی ہے۔ اورسپریم کورٹ، خاص طور پر چیف جسٹس اور ان کے آفس کے لیے، عوام کی نظر میں جو عزت و احترام ہے، یہ بیانات اس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔''

 پرشانت بھوشن نے اپنی ایک ٹویٹ میں بھارتی جمہوریت کی تباہی میں سپریم کورٹ کے چار سابق چیف جسٹس کو مورد الزام ٹھہرایا تھا جبکہ دوسری ٹویٹ میں موجودہ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے پر نکتہ چینی تھی۔

 انہوں نے لکھا تھا کہ بھارتی چیف جسٹس نے کورونا وباکے دور میں ہیلمٹ اور ماسک کے بغیر موٹر سائیکل کی سواری کی جبکہ عدالت کو لاک ڈاؤن میں رکھ کر لوگوں کو انصاف جیسے حق سے محروم رکھا۔

خیال رہے کہ کچھ روز قبل چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی ایک تصویر، جس میں وہ مہنگی ترین بائیک پر بغیر ہیلمٹ اور ماسک کے بیٹھے ہوئے تھے، وائرل ہوگئی تھی۔

پہلی ٹویٹ میں پرشانت بھوشن نے لکھا تھا، ''مستقبل میں مورخین جب اس بات کا جائزہ لیں گے کہ گزشتہ چھ برسوں کے دوران باضابطہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر ہی بھارتی جمہوریت کو کس طرح تباہ کیا گیا، تو وہ اس تباہی کے لیے سپریم کورٹ کے کردار کی خاص طور پر نشاندہی کریں گے، بالخصوص سپریم کورٹ کے چار سابق چیف جسٹسز کا۔''

’مودی حکومت خاموش کرائے گی تو دیواریں بھی بولیں گی‘

پرشانت بھوشن حالیہ دنوں میں عدالت عظمی پر اس حوالے سے نکتہ چینی کرتے رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران عدالت مہاجر مزدروں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کورونا وبا کے دور میں متعدد سیاسی قیدیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے حوالے سے بھی عدالتوں کے رویے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ پرشانت بھوشن کشمیر سمیت ملک کے متعدد علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور مذہبی فسادات کے خلاف بھی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

ملک کے کئی سرکردہ وکیل یہ بات کہتے رہے ہیں کہ بھارتی عدالتیں پہلے فعال انداز سے انسانی حقوق کی پاسبانی یا قانون کی حکمرانی کے لیے کام کرتی تھیں لیکن اب پہلے جیسی بات نہیں رہی اور اب بھارتی جج کے رویوں سے لگتا ہے کہ وہ دباؤ کا شکار ہیں۔

سپریم کورٹ کے سرکردہ وکیل اور معروف سماجی کارکن سنجے ہیگڑے نے اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''میں کئی برس پہلے ہی یہ بات لکھا چکا ہوں، کہ جس دن ملک میں اکثریت والی حکومت آجائے گی تو عدالتیں بھی اسی کی تقلید کریں گی اور ان کے موافق ہوجائیں گی۔ تو جیسے جیسے اکثریت بڑھتی گئی ماحول بھی اکثریت کی طرف بدلتا گیا اور آج عدالتیں اسی کی عکاس ہیں۔

 ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں سپریم کورٹ کے وکیل مجیب الرحمان اور محمود پراچہ نے بھی کہا تھا کہ اس وقت بھارتی عدالتیں حکومت کے دباؤ میں کام کر رہی ہیں۔

مبصرین کہتے ہیں کہ اس وقت عدالتیں حکومت کے کیسز کے حوالے سے بہت فعال ہیں جبکہ عوامی معاملات میں لیت و لعل سے کام لیتی ہیں۔

نیشنل رجسٹریشن بل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسہ جاری

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں