’یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیراں‘
25 دسمبر 2019پچیس دسمبر کو جشن منانا رسم دنیا بھی ہے، دستور بھی اور موقع بھی۔ دنیا بھر میں اس دن کرسمس کی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور پاکستان میں اس روز مسیحی برادری کے اس مقدس تہوار کے موقع پر بہت سے دیگر پاکستانی کرسمس بھی مناتے ہیں اور ساتھ ہی بابائے قوم کا یوم پیدائش بھی۔ بچپن سے ہم پچیس دسمبر کی چھٹی اور جشن و تقریبات دیکھتے آئے ہیں۔ مجھے یہ بات بڑی دلچسپ لگا کرتی تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش عین کرسمس کے روز ہے۔ اس بارے میں ایک بار میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ پچیس دسمبر کو چھٹی کا سلسلہ کب سے چلا آ رہا ہے تو انہوں نے بتایا کہ جس سال پاکستان کا قیام وجود میں آیا، اُسی سال سے 25 دسمبر کو چھٹی کا اعلان خود محمد علی جناح نے کیا تھا جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک ایسا ملک دیکھنا چاہتے تھے جہاں ہر مذہب، ثقافت اور زبان سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کے ساتھ افہام و تفہیم کی فضا میں خوشیاں منا سکیں اور ایک دوسرے کے دکھ بانٹ سکیں۔
جناح اور مغربی اقدار
کراچی کے وزیر مینشن میں ایک اسماعیلی شیعہ مسلم گھرانے میں آنکھ کھولنے والے محمد علی جناح کی شخصیت ثقافتی اور لسانیاتی تنوع میں پروان چڑھی۔ اُن کے گھر میں گجراتی بولی جاتی تھی۔ جناح کی بنیادی شخصیت گھر کے اندر ہی بنی جس کے بعد انہیں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کر دیا گیا بعد ازاں کراچی ہی کے ایک کرسچین مشنری اسکول سے انہوں نے ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کی۔ 16 برس کی عمر میں محمد علی جناح کا داخلہ ممبئی کی یونیورسٹی میں ہو گیا۔ اس نو عمری ہی میں جناح کو ایک برطانوی شپنگ کمپنی کی طرف سے انٹرنشپ کی پیشکش کی گئی، جو انہوں نے قبول کر لی اور برطانیہ چلے گئے۔ برطانیہ میں بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی اور برطانوی تعلیم اور سیاسی ماحول سے روشناسی نے جناح کی شخصیت پر واضح اثرات مرتب کیے۔ برطانیہ میں اپنی طالبعلمی کے دور ہی میں محمد علی جناح نے ہاؤس آف کامنز میں رکنیت اختیار کرنے کے لیے الیکشن مہم شروع کی۔ جناح نے بہت جلد ہی اپنے سیاسی تدبر اور پارلیمانی سوجھ بوجھ کے جوہر منوا لیے۔ اس طرح بر صغیر کی آزادی اور مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل ایک نئے ملک کے قیام کا سہرا اسی قائد کے سر رہا جو ایک روشن خیال اور مغربی تعلیم و اقدار کی آئینہ دار شخصیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی تہذیب و ثقافت کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتا تھا۔
جناح کا تصور آزادی اور پاکستان کا المیہ
ہر سال پچیس دسمبر کو پاکستان کے گھر گھر اور کوچے کوچے سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے۔’’یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیران‘‘۔ میں ہر سال یہ سوچتی ہوں کہ قائد نے تو یقیناً عوام پر یہ احسان کیا تھا کہ ایک ملک بنا کر ایک قوم کو برطانوی سامراجیت کی غلامی سے آزاد کروایا اور انہیں ایے خطہ ارض فراہم کیا جہاں عوام آزادی سے اور امن اور بھائی چارگی کے ساتھ ایک باوقار قوم کی حیثیت سے زندگی گزار سکیں لیکن کیا 70 سال میں پاکستان خطے اور دنیا بھر میں اپنا یہ مقام حاصل کر سکا۔
کیا آج کے پاکستان میں عوام ’ چاہے کسی مذہب کے ماننے والے ہوں اور کوئی بھی زبان بولتے ہوں‘ واقعی آزاد ہیں؟ کیا عقیدے، مذہب،زبان، رنگ ونسل کی زنجیریں ٹوٹی ہیں؟ کیا پاکستانی عوام اپنی نسلوں کو وہ پاکستان دے سکی ہیں جس کا خواب بابائے قوم نے دیکھا تھا؟ کیا میں اور آپ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم ایک باوقار قوم کی تشکیل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ ان سوالات کا جواب مجھے صرف اور صرف ایک مایوس کُن ’’نہیں‘‘ کی صورت میں ملتا ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟
جس ملک میں 70 سال سے ہر طرح کے سیاسی تجربے، عسکری مشقیں، اندرونی اور بیرونی سازشیں ہی پھلتی پھولتی رہی ہیں وہ ملک مزید کس طرف جائے گا؟ کیا پھر کوئی جناح آئے گا؟