1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان کشتی سانحہ: پاکستان میں آج قومی سوگ منایا جا رہا ہے

19 جون 2023

اس ہفتے کے اوائل میں یونان کے ساحل پر ڈوبنے والے بحری جہاز میں سینکڑوں پاکستانی بھی سوار تھے۔ حکومت پاکستان نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Sk9x
Griechenland Schiffsunglück
تصویر: HELLENIC COAST GUARD/REUTERS

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بحیرہ روم میں یونان کے ساحل کے پاس کشتی الٹنے کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں 19 جون پیر کے دن ایک روز کے لیے قومی سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔

یونان میں کشتی ڈوبنے سے کم از کم 59 تارکین وطن ہلاک

 حکومت نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کے لیے چار رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔

لیبیا میں دو کشتیاں ڈوبنے سے درجنوں تارکین وطن ہلاک

خیال کیا جاتا ہے کہ جب کشتی ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا اس وقت اس پر شام، مصر، فلسطین اور پاکستان جیسے ممالک کے 500 سے 700 تک مرد و خواتین اور بچے سوار تھے۔

اٹلی کے بعد لیبیا میں بھی کشتی حادثہ، تین پاکستانی ہلاک

بحیرہ روم میں رواں برس کشتی ڈوبنے کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کے بدترین آفات میں سے ایک تھا۔ اب تک تقریباً 78 لاشیں برآمد کی جا چکی ہیں اور 104 کو زندہ بچا لیا گیا، تاہم سینکڑوں اب بھی لاپتہ ہیں، جن کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔

تارکین وطن کی کشتی حادثے کا شکار، کم از کم 59 افراد ہلاک

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اتوار کے روز اس سانحے پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان 19 جون کو یوم سوگ کے طور پر منائے گا اور قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔''

سمندر میں پھنسے روہنگیا پناہ گزینوں کو بچانے کی اقوام متحدہ کی اپیل

حکومت نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''وزیر اعظم شہباز شریف کا یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار، واقعے کی انکوائری کی ہدایات۔''

اس میں مزید کہا گیا، ''وزیر اعظم شہباز شریف کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لوگوں کو جھانسہ دے کر خطرناک اقدامات پر مجبور کرنے والے انسانی اسمگلروں کے خلاف فوری کریک ڈاؤن کی ہدایت۔''

 ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ اب تک اس نے اپنے ان 12 شہریوں کی شناخت کر لی ہے، جنہیں کوسٹ گارڈز نے بچا لیا تھا۔

غرقاب ہونے والے اس بحری جہاز میں کتنے پاکستانی سوار تھے اس بارے میں ابھی تک کوئی حتمی سرکاری معلومات میسر نہیں ہیں، تاہم مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ تعداد سینکڑوں میں ہو سکتی ہے۔

Griechenland Kalamata Schiffsunglück Migranten
خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے انسانی اسمگلر یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے نوجوان پاکستانیوں سے ہر برس لاکھوں کی کمائی کرتے ہیں، لیکن ان میں سے سیکڑوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیںتصویر: STELIOS MISINAS/REUTERS

حادثے کا شکار ہونے والی کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی، تبھی اسے یونانی کوسٹ گارڈ نے دیکھا بھی۔ اب اس بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ یونانی کوسٹ گارڈز کو اسے بچانے کے لیے مزید اقدام کرنے کی ضرورت تھی، کیونکہ کشتی ڈوبنے کے آخری اوقات میں ان کے جہاز رابطے میں تھی اور وہ قریب بھی تھی۔

مہاجرت سے متعلق ادارے 'ہینرش بول فاؤنڈیشن' کے لیے یورپ میں مہاجرین سے متعلق پالیسی کی سربراہ، نوری کیا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جہاز کے اٹلی جانے کی وجہ، ''یونان کی جانب سے بار بار کی جانے والی غیر قانونی سرحدی خلاف ورزیاں اور انہیں مبینہ پیچھے دھکیلنے کی کوشش تھی۔''

 ان کا مزید کہنا تھا، ''برسوں سے، جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ سرحدی حفاظت سے متعلق پالیسی ہے، جو حقیقت میں، ہلاکت خیز جہازوں کے تباہ ہونے کا مزید باعث بنتی ہے۔''

انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن

اس سانحے کے ردعمل میں پاکستانی حکومت نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ لیبیا اور بحیرہ روم کے راستے سے یورپ جانے کے لیے خطرناک سفر پر لوگوں کو راغب کرتے ہیں۔

وزیر اعظم کے دفتر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ توقع ہے کہ ایک خصوصی کمیٹی اس حوالے سے قانونی فریم ورک تیار کرے گی اور ایسے واقعات کو روکنے اور اسمگلروں کو سزا دینے کے لیے بین الاقوامی رابطہ کاری کو فروغ دینے کا کام کرے گی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے انسانی اسمگلر یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے نوجوان پاکستانیوں سے ہر برس لاکھوں کی کمائی کرتے ہیں، لیکن ان میں سے سیکڑوں یا تو موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یا پھر راستے میں ہی جیل کی سلاخیں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔

اس دوران حکام نے بتایا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بیشتر متاثرین کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو بھی گرفتار کیا گیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ تارکین وطن کی روانگی کے حوالے سے یہ علاقہ بھی کافی بدنام ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ایک مقامی اہلکار، چوہدری شوکت کا کہنا تھا، ''یہ تمام افراد اس پورے عمل میں سہولت فراہم کرنے میں ملوث ہونے کی وجہ سے فی الوقت زیر تفتیش ہیں۔''

یونانی کوسٹ گارڈز نے اپنا دفاع کیا

اس سانحے کے بعد یونان کے ساحلی محافظ اس واقعے میں اپنے کردار کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں۔ ان پر تارکین وطن کو بچانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کا الزام ہے، جبکہ انہوں نے ڈوبنے سے پہلے کشتی کو پریشانی میں دیکھا بھی تھا۔

تاہم کوسٹ گارڈ کے ایک کپتان، جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی، نے یونانی میڈیا کے سامنے اپنا دفاع کیا۔ کپتان نے کہا کہ ''ہم نے جہاز کی حالت اور مسافروں کی حالت جاننے کے لیے رابطہ کیا اور دوبارہ مدد کی پیشکش کی۔''

ان کا مزید کہنا کہ جب اہلکاروں نے کشتی کی کمان سے رسی باندھی تو اس میں سوار افراد نے ''کوئی مدد نہیں چاہیے'' اور اٹلی ''جاو'' کے نعرے لگائے۔''

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ''بار بار اپیل کرنے کے باوجود کہ آیا انہیں مدد کی ضرورت تو نہیں ہے، انہوں نے ہمیں نظر انداز کیا اور رات کے تقریبا ً11:57  بجے رسی کھول دی۔ انہوں نے اپنا انجن اسٹارٹ کیا اور کم رفتار سے مغرب کی جانب چل پڑے۔''

بعض دیگر اطلاعات کے مطابق، جس کی تصدیق اے پی اور روئٹرز سے نہیں ہو سکی، جہاز میں موجود افراد نے کشتی پر شدید پریشانی کی

 صورت حال کو بیان کرتے ہوئے مدد طلب کرنے کے لیے کارکنوں سے رابطہ کیا تھا۔ کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تارکین وطن نے کشتی ڈوبنے سے 15 گھنٹے قبل ہی مدد کے لیے بار بار درخواستیں بھی کی تھیں۔

بین الاقوامی سمندری قانون اور ساحلی محافظوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کشتی کے حالات نے واضح طور پر ظاہر کر دیا تھا کہ وہ خطرے میں ہے اور قطع نظر اس کے کہ کشتی کے مسافروں نے کیا کہا، فوری طور پر ریسکیو آپریشن شروع کرنے کی ضرورت تھی۔

ص ز / ج ا (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)

کشتی حادثہ، رشتہ داروں کو دردناک خبر کا انتظار