1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

حوثیوں کے ٹھکانوں پر امریکی، برطانوی فضائی حملوں کی نئی لہر

25 فروری 2024

امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں حوثی باغیوں کے تقریباﹰ اٹھارہ ٹھکانوں اور اہم عسکری اہداف پر نئے حملے کیے ہیں۔ یہ حملے ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے بحیرہ احمر میں تجارتی بحری جہازوں پر مسلسل حملوں کے جواب میں کیے گئے۔

https://p.dw.com/p/4crbx
حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے امریکہ کے ایک طیارہ بردار بحری جہاز سے روانہ ہوتا ہوا ایک جنگی طیارہ
حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے امریکہ کے ایک طیارہ بردار بحری جہاز سے روانہ ہوتا ہوا ایک جنگی طیارہتصویر: Kaitlin Watt/U.S. Navy/AP/picture alliance

واشنگٹن سے اتوار 25 فروری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق گزشتہ برس اکتوبر سے جاری غزہ کی جنگ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے رد عمل میں اور غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت میں یمن کے وسیع تر علاقوں پر قابض حوثی باغی پچھلے کئی ہفتوں سے بحیرہ احمر میں زیادہ تر امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کی ملکیت تجارتی بحری جہازوں پر متواتر حملے کر رہے ہیں۔

اگر ایرانی بحری جہاز پکڑے گئے تو بدلہ لیا جائے گا، تہران کا انتباہ

امریکہ اور یورپ میں اس کا قریب ترین اتحادی ملک برطانیہ یمنی باغیوں کے ان حملوں کو رکوانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں اور تازہ ترین فضائی حملے بھی اسی مقصد کے تحت کیے گئے۔

یمن میں آٹھ مقامات پر اٹھارہ اہداف پر حملے

امریکی اور برطانوی افواج کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ''ان حملوں میں یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے 18 ٹھکانوں اور عسکری اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔‘‘

ان تازہ فضائی حملوں میں برطانیہ کے چار ٹائیفون جنگی طیاروں نے بھی حصہ لیا
ان تازہ فضائی حملوں میں برطانیہ کے چار ٹائیفون جنگی طیاروں نے بھی حصہ لیاتصویر: Royal Air Force/dpa/picture alliance

بیان کے مطابق، ''یہ اہداف پورے یمن میں آٹھ مختلف مقامات پر پھیلے ہوئے تھے، ان میں ہتھیاروں کی ذخیرہ گاہیں، فضائی حملوں کے لیے استعمال ہونے والے ڈرون، فضائی دفاعی نظام اور ریڈار بھی شامل تھے اور ایک ہیلی کاپٹر بھی۔‘‘

بحیرہ احمر میں کشیدگی حوثی باغیوں کے لیے ایک ’سنہری موقع‘؟

مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا، ''یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے گزشتہ برس نومبر سے لے کر اب تک بحیرہ احمر میں تجارتی اور عسکری بحری جہازوں پر کیے جانے والے حملوں کی تعداد 45 سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ حملے عالمی معیشت کے ساتھ ساتھ علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے بھی خطرہ ہیں اور اسی لیے وہ بین الاقوامی فوجی ردعمل کے متقاضی تھے۔‘‘

حملوں میں کئی دیگر ممالک نے بھی مدد کی

امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے حوثی باغیوں کے خلاف کیے جانے والے ان تازہ حملوں میں صرف یہ دو ممالک ہی شامل نہیں تھے۔ مشترکہ بیان پر جن دیگر ممالک کے اعلیٰ عسکری نمائندوں کی طرف سے بھی دستخط کیے گئے، وہ آسٹریلیا، بحرین، ڈنمارک، کینیڈا، نیدرلینڈز اور نیوزی لینڈ تھے۔

خلیج عدن کے علاقے میں ایک آئل ٹینکر پر حوثی باغیوں کے حملے کے بعد اس پر لگی ہوئی آگ
خلیج عدن کے علاقے میں ایک آئل ٹینکر پر حوثی باغیوں کے حملے کے بعد اس پر لگی ہوئی آگتصویر: Indian Navy /AP/picture alliance

بیان کے مطابق حوثی باغیوں کے خلاف عسکری کارروائیوں کی اس تازہ ترین لہر میں ان تمام چھ ممالک نے بھی مدد فراہم کی۔ اس مدد کی تاہم کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔

اسرائيل حماس جنگ مشرق وسطیٰ کی تجارتی گزر گاہوں پر اثر انداز

واشنگٹن اور لندن سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق بحیرہ احمر میں سلامتی اور محفوظ جہاز رانی کو ممکن بنانے کے لیے حوثیوں کے ٹھکانوں پر جو تازہ ترین حملے کیے گئے، وہ روا‌ں ماہ کے دوران کیے جانے والے اپنی نوعیت کے دوسرے بھرپور بین الاقوامی حملے ہیں۔

مجموعی طور پر حوثی باغیوں کی طرف سے سمندری حملے شروع کیے جانے کے بعد سے یہ مغربی طاقتوں کی طرف سے ان کے خلاف کیے جانے والے فضائی حملوں کا چوتھا سلسلہ تھا۔ ہفتے کی شام کیے گئے ان فضائی حملوں میں امریکی اور برطانوی جنگی طیاروں نے حصہ لیا۔

م م / ع س (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

ایران کا مشرق وسطیٰ کے بحران میں کلیدی کردار