1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں صحت کی انتہائی ناقص سہولیات

جاوید اختر، نئی دہلی
3 دسمبر 2019

عالمی طبی تحقیقی جریدے لانسیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیلتھ کیئر کے معاملے میں بھارت اپنے پڑوسی ممالک بنگلہ دیش،سری لنکا اور بھوٹان سے پیچھے ہے جب کہ چین سے بھی بہت پیچھے ہے۔

https://p.dw.com/p/3U9dw
Indien Westbengalen Gesundheitssystem, Krankenhäuser
تصویر: DW/P. Samanta

لانسیٹ کی رپورٹ کے مطابق تپ دق، امراض قلب، فالج،کینسر،گردے کی بیماریوں وغیرہ سے نمٹنے کے معاملے میں بھارت کی کارکردگی خراب رہی ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سری لنکا، بھوٹان اور بنگلہ دیش جیسے پڑوسی ممالک ہیلتھ کیئر کے معیار اور اس تک رسائی کے معاملے میں بھارت سے کہیں آگے ہیں۔ 195ملکوں کی فہرست میں سری لنکا 71ویں، بنگلہ دیش 133ویں اور بھوٹان 134ویں مقام پر جب کہ چین، بھارت سے بہت آگے 48ویں مقام پر ہے۔ بھارت بہر حال نیپال، پاکستان اور افغانستان سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ یہ ممالک بالترتیب 149ویں، 154ویں اور 191نمبر پر ہیں۔

 دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اسکیم’مودی کیئر‘ کا اجراء
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ نتائج ہیلتھ کیئرکو معیاری بنانے اور ان تک سماج کے تمام طبقات تک رسائی کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں بصورت دیگر صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو‘صحت خدمات فراہم کرنے والوں اور بیماریوں سے پریشان عوام کے درمیان‘ بڑھتے ہوئے خلیج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

Indien Westbengalen Gesundheitssystem, Krankenhäuser
تصویر: DW/P. Samanta


لندن اور امریکہ سے شائع ہونے والے جرنل لانسیٹ نے اپنی رپورٹ کی تیاری میں ہیلتھ کیئر کے میعار اور اس تک رسائی کا ماپنے کے لیے اموات کے ایسے 32 اسباب، جنہیں موثر طبی دیکھ بھال کے ذریعہ روکا جاسکتا ہے، کو بنیاد بنایا ہے۔ 195ملکوں میں سے ہر ایک ملک کا صفر سے 100 کے اسکور کی بنیاد پر تجزیہ کیا گیا۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن ڈیولپمنٹ، دہلی میں فیلو پرتیما یادو کا بھارت میں معیاری ہیلتھ کیئر کی کمی کے حوالے سے کہنا تھا ”حالانکہ حکومت نے 'آیوش مان بھارت‘ کے نام سے گذشتہ برس ستمبر میں ہیلتھ انشورنس کی ایک نہایت وسیع اسکیم شروع کی ہے۔ اس اسکیم کو بلا شبہ دنیا میں اب تک کسی بھی ملک میں شروع کیا گیا سب سے بڑا سوشل ہیلتھ انشورنس پروگرام کہا جاسکتا ہے لیکن اس میں بہت ساری بنیادی چیزوں کی وضاحت نہیں ہے۔ مثلاً یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ پرائمری ہیلتھ مراکز کو کس طرح مالی مدد دی جائے گی اور انہیں کیسے مستحکم بنایا جائے گا۔" پرتیما یادو کا کہنا تھا کہ جو دستاویزات اور شواہد دستیاب ہیں ان کی بنیاد پر یہ طے کرنا مشکل ہے کہ یہ محض انتخابی نعرہ ہے یا واقعی ایک اہم اسکیم۔"

Indien Westbengalen Gesundheitssystem, Krankenhäuser
تصویر: DW/P. Samanta


خیال رہے کہ آیوش مان بھارت اسکیم کے تحت حکومت نے دس کروڑ غریب خاندانوں کو سالانہ پانچ لاکھ روپے کا ہیلتھ انشورنس دینے کا فیصلہ کیا ہے اس طرح تقریباً پچاس کروڑ افراد کا احاطہ کیا جائے گا۔

بھارت میں خواتین کے سینیٹری پیڈز پر عائد ٹیکس مکمل طور پر ختم
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت نے سن 2017 میں نیشنل ہیلتھ پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ جس میں سن 2025 تک صحت پر سرکاری فنڈنگ کو دھیرے دھیر ے بڑھا کر جی ڈی پی کا 2.5% کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ لیکن اس پالیسی میں اس با ت کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی۔ اس وقت بھارت کی مجموعی قومی پیداوار کا صرف ایک فیصد کے قریب صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔


لانسیٹ کی تازہ ترین رپورٹ پر مختلف حلقوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ بھارت کے سب سے مشہورطبی ادارہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، دہلی کے ڈاکٹر شاہ عالم خان نے ٹوئیٹ کیا ”بھارت کا ہیلتھ کیئر سسٹم شام سے بھی بدترین ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات ہمارے یہاں عراق سے بھی زیادہ ہے۔ بھکمری کا بھارت کا انڈکس سب سہارا افریقہ سے بھی بدترین ہے۔ کسی ملک کو تباہ کرنے کے لیے صرف جنگ ہی ضروری نہیں ہے ایک ناکارہ حکمراں طبقہ بھی یہ کام آسانی سے کرسکتا ہے۔


ایلوا راسو نامی ایک صارف نے لکھا ”اگر کیرالہ اور تمل ناڈو کو چھوڑ کر نتیجہ اخذ کیا جاتا تو بھارت تو 195ویں نمبر پر ہوتا۔"
دریں اثنا بھارت میں ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کرنے والے حکومتی ادارہ نیتی آیوگ کے سکریٹری یادوویندر ماتھرنے بھی ملک میں ہیلتھ کیئر کی خراب صورت حال پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے ملک کے ہیلتھ کیئر کے نظام کو 'ڈوبتے ہوئے جہاز‘ سے تعبیر کیا ہے جس پر فوراً توجہ دینے کی ضرورت ہے۔