1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہندو لڑکیوں نے رضامندی سے اسلام قبول کیا، عدالت

11 اپریل 2019

ایک پاکستانی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والی دو ٹین ایجر لڑکیوں نے اپنی رضامندی سے اسلام قبول کیا تھا۔ لڑکیوں کے والدین کا الزام تھا کہ انہیں اغوا کر کے زبردستی مسلمان کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3GdIV
فائل فوٹوتصویر: DW/Raffat Saeed

مارچ کے مہینے میں عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ پاکستان کے صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی دو نوجوان ہندو بہنوں کو حکومتی تحویل میں دے دیا جائے۔ ان لڑکیوں کے والدین کا الزام تھا کہ دونوں ٹین ایجر بہنوں کو اغوا کرنے کے بعد انہیں زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کی خبر وائرل ہونے کے بعد پاکستان کے ہمسایہ اور ہندو اکثریتی ملک بھارت میں بھی اس خبر کو بہت توجہ دی گئی تھی۔

بعد ازاں سوشل میڈیا پر ان دونوں بہنوں کی ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ رضامندی سے مسلمان ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنی پسند سے مسلمان لڑکوں کے ساتھ شادی کی ہے۔

پاکستانی پولیس کے تفتیش کاروں نے بتایا تھا کہ دونوں ہندو بہنیں بیس مارچ کے روز اپنے گھر سے فرار ہو کر پنجاب چلی گئیں جہاں انہوں نے دو مسلمان لڑکوں کے ساتھ شادی کر لی تھی۔ سندھ میں اٹھارہ برس سے کم عمر کے بچوں کی شادی پر پابندی ہے جب کہ صوبہ پنجاب میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔

Pakistan - Bekehrung hinduistischer Mädchen in Ghotki
سندھ کے پیر عبد الحق عرف میاں مٹھو ہندو لڑکوں اور لڑکیوں کے تبدیلی مذہب کے حوالے سے متنازع شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہےتصویر: Pir Abdul Haq

جمعرات گیارہ اپریل کے روز ایک پاکستانی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ دونوں بہنیں اتنی بالغ ہیں کہ وہ اپنی زندگیوں کے بارے میں خود فیصلہ کر سکیں۔

اس واقعے کی خبریں سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں تعینات اپنے سفیر سے اس واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ سشما سوراج کے جواب میں پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ بھارت میں مسلمان اقلیت پر توجہ دیں اور پاکستان ’مکمل طور پر لڑکیوں کے ساتھ‘ ہے۔

ش ح / ع ب (روئٹرز)