'ہمارے خلاف کارروائی صرف ہراس کرنے کے لیے ہے' جماعت اسلامی
12 اگست 2021بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دو برس کے بعد پہلی بار جماعت اسلامی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے
دہشت گردی کی فنڈنگ سے متعلق بھارتی ایجنسیوں کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا، ’نہ تو کبھی کسی عسکریت پسند گروہ کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی وہ تحریکی سیاست پر یقین رکھتی ہے‘۔
بھارتی حکومت کی کارروائیاں
بھارتی ایجنسیاں حالیہ دنوں میں جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی کے دفاتر اور اس کے تعلیمی اداروں پر چھاپے ماری کرتی رہی ہیں۔ قومی تفتیشی ادارے این آئی اے کا دعوی ہے کہ جماعت اسلامی کشمیر میں عسکریت پسندوں کی مدد کے لیے فنڈز مہیا کرتی رہی ہے۔
بھارتی ایجنسیوں کا یہ بھی الزام ہے کہ جماعت اسلامی وادی کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں اور بھارت مخالف سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ اسی لیے گزشتہ ہفتے این آئی اے نے جموں و کشمیر میں واقع جماعت اسلامی سے وابستہ بہت سے کارکنان کے گھروں پر چھاپے بھی مارے تھے۔
جماعت اسلامی کا موقف
مودی حکومت نے سن 2019 میں ہی خطہ کشمیر کی جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی تھی تب سے کشمیر میں یہ ایک ممنوعہ تنظیم ہے اور تنظیم کے بیشتر رہنما اور کارکنان جیلوں میں قید ہیں۔ اسی لیے حکومتی ایجنسیوں کے دعوے کی تردید کے لیے تنظیم کے تین سابق صدور نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔
سن 2019 میں جماعت پر پابندی کے بعد تنظیم کے سابق ترجمان ایڈوکیٹ زاہد علی کو بھی جیل میں ڈال دیا گيا تھا جو ابھی حال ہی میں رہا ہو کر گھر پہنچے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا جماعت پر پابندی کی وجہ سے اس کے تمام دفاتر بند پڑے ہیں اور، "کوئی بھی سرگرمی نہیں تو بھارتی ایجنسیاں اب کارکنان کے گھروں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "یہ بس ہراساں کرنے اور دھونس جتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ تنظیم اس وقت سرگرم تو ہے نہیں۔ انہیں کوئی ثبوت دینا چاہیے کہ آخر جماعت نے کس کو فنڈنگ کی ہے اور کہاں دیا ہے؟ جماعت 1997 سے یہ مسلسل کہتی رہی ہے کہ ہمارا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"
تنظیم کے سابق ترجمان زاہد علی کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کشمیر میں سماجی خدمات کا کام کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ مذہبی تبلیغ کے لیے جلسے جلوس کرتی تھی جو پابندی کے سبب سب بند پڑے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، "کشمیر میں اس وقت زبردست خوف اور دہشت ہے۔ ہر ایک کو کم سے کم بنیادی آزادی کے حقوق ملنے چاہیں۔ ہر شخص کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادانہ طور پر کام کرنے کی تو اجازت ہونی چاہیے۔ ہم کسی غیر قانونی کام کی بات نہیں کرتے ہیں۔"
اس سے قبل جماعت کے تین سابق سربراہان نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا تھا، "جماعت نے بارہا یہ بات واضح کی ہے کہ اس کا کسی بھی عسکری گروہ سے براہ راست یا خفیہ کبھی بھی کوئی رابطہ نہیں تھا اور جماعت کے خلاف اس طرح کے تمام الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں ۔۔۔۔ جماعت کبھی بھی تحریکی سیاست پر یقین نہیں رکھتی تھی اور نہ ہی اس نے کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جس کی وجہ سے امن و امان کی صورت حال میں خلل پڑے یا پھر کوئی فساد برپا ہوا ہو۔"
تینوں سابق سربراہان، شیخ غلام حسن، غلام محمد بھٹ اور محمد عبداللہ وانی نے اپنے مشترکہ بیان میں مزید کہا، "جماعت نے پورے معاشرے کی فلاح و بہود کے مقصد سے اپنے مشن، پروگراموں اور پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے زبانی اور تحریری طور پر ہمیشہ تبلیغی طریقے استعمال کیے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود بغیر کسی معقول وجہ کے اس پر پابندیاں عائد کی گئیں اور کئی بار اسے ’غیر قانونی ایسوسی ایشن‘ قرار دیا گیا۔ اس پر ایسے الزامات لگائے گئے کہ جن کی کوئی بنیاد نہیں تھی بلکہ یہ تمام حقائق کے برعکس تھے۔"
جماعت اسلامی کشمیر نے حکومت کی پابندی کے حلاف دہلی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے تاہم کووڈ کی وجہ سے اس پر بھی سماعت نہیں ہو پا رہی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 اگست میں کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس وقت سے بھارت کی ہندو قوم پرست مودی حکومت گورنر کے ذریعے براہ راست کشمیر کا انتظام سنبھالتی ہے اور تمام مقامی اداروں کے اختیارات منسوخ ہیں۔
دو برس قبل مودی حکومت نے دفعہ 370 کو ختم کرنے کے لیے کشمیر میں کرفیو جیسی سخت بندشیں عائد کر دی تھیں اور سینکڑوں کشمیری رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس میں سے بیشتر اب بھی بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جبکہ بہت سی سخت بندشیں اب بھی عائد ہیں۔