1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گھٹن، بے بسی، ظلم اور لاقانونیت کی بو، کب تک؟

6 جنوری 2021

سوشل میڈیا کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ پہلے جو کچھ آسانی سے چھپ جاتا تھا، اب چھپایا نہیں جا سکتا۔ اسامہ ندیم ستی کی ہلاکت ایک ایسا سانحہ ہے، جس میں ایک بےگناہ نوجوان قانون کے محافظوں ہی کے ہاتھوں بےدردی سے مارا گیا۔

https://p.dw.com/p/3nYn2
Ismat Jabeen Bloggerin
تصویر: Privat

پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کے اعداد و شمار اس امر کے گواہ ہیں کہ ملک میں 2014ء اور 2018ء  کے درمیان تقریباﹰ ساڑھے تین ہزار پولیس مقابلے ہوئے، جن میں 3345 افراد مارے گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سبھی پولیس مقابلے ایک سے ہوتے ہیں اور ان کے نتائج بھی۔ اور بھی عجیب بات یہ ہے کہ ایسے مسلح مقابلوں اور ان میں انسانی ہلاکتوں کے بعد قانونی حوالے سے کاغذات کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے اور سزا کسی کو نہیں ملتی۔

بات چاہے ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کے بہیمانہ قتل کی ہو یا کراچی میں سبین محمود کے قتل کی، جس کے ڈرائیور کو بھی چھ ماہ بعد قتل کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ اس جرم کا واحد عینی شاہد تھا، اس کے علاوہ بات چاہے صلاح الدین ایوبی کی ہو، جو پولیس تشدد کے نتیجے میں جان ہار گیا تھا یا پھر بلوچستان میں ہزارہ برادری کے افراد کو چن چن کر قتل کرنے کی، سوال یہ ہے کہ ایسے قاتل کبھی پکڑے کیوں نہیں جاتے؟ مقتولوں اور مظلوموں کے لواحقین کو انصاف کیوں نہیں ملتا، ناکافی شواہد کی بنا پر مقدمات بند کیوں کر دیے جاتے ہیں یا پھر ان کی سماعت کے نتیجے میں سبھی نہیں تو زیادہ تر قاتلوں کو سزائیں کیوں نہیں ملتیں۔

پاکستانی معاشرے میں اگر کسی کو انصاف مل بھی جائے، تو اس کی قیمت بہت خوفناک ہوتی ہے۔ مثلاﹰ وہ قیمت جو جندو مائی کے خاندان نے چکائی۔ 1992 میں سندھ کی مائی جندو کے دو بیٹوں اور ایک داماد کو ایک فوجی افسر نے مار دیا تھا۔ پھر انصاف نہ ملنے پر جندو مائی کی دو بیٹیوں نے خود سوزی کر لی تھی مگر جندو مائی تن تنہا اس کیس کی تب تک پیروی کرتی رہی تھی جب تک کہ مجرم کو پھانسی نہ دے دی گئی۔

پاکستانی شہری اور سوشل میڈیا صارفین ابھی تک راؤ انوار کو بھی نہیں بھولے، کراچی میں سندھ پولیس کا ایک اعلیٰ افسر جس کی وجہ سے ناقدین کہتے تھے کہ ملیر میں تو جنگل کا قانون نافذ تھا۔ راؤ انوار نے پولیس مقابلوں میں جتنے بھی افراد کو قتل کیا، کیا سندھ پولیس کے پاس ان سب کا ریکارڈ موجود ہے؟ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اگر نقیب اللہ قتل کیس سوشل میڈیا پر نہ آتا تو راؤ انوار کے ‘کارناموں' کی تفصیلات بھی کبھی منظر پر نہ آتیں۔

پاکستان میں انگریزی کے ایک کثیر الاشاعت روزنامے نے اپنے طور پر چھان بین کر کے جو اعداد و شمار جمع کیے، ان کے مطابق 2011ء سے لے کر 2018ء تک کل 745 پولیس مقابلے ہوئے، جن میں 444 افراد کو ‘ٹھکانے' لگا دیا گیا۔ اس بات پر کس قدر حیران ہوا جائے کہ ان پولیس مقابلوں میں کوئی بھی پولیس اہلکار ہلاک یا شدید زخمی نہیں ہوا۔ قتل کے ایسے ماورائے عدالت واقعات کے ذمے دار عناصر کو کوئی سزا کیوں نہیں ملتی؟ اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر کوئی زیادہ سوال پوچھے تو سوال پوچھنے والا ہی غائب ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسی ہلاکتوں کے ذمے دار وہ عناصر اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار ہوتے ہیں، جو ایسا کرتے ہوئے اپنے فرائض کی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں۔

کیا یہ ریاست کا فرض نہیں بنتا کہ وہ اپنے ایسے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے، جو ایسی ہلاکتوں کی وجہ بنتے ہیں؟ یہ سوال پوچھنا بھی کتنا غلط ہو گا کہ اگر اس صورت حال کے تدارک کے لیے حکومت کی کوئی پالیسی ہے، تو وہ کیا ہے؟ اس بارے میں تو شاید کچھ کہنا ہی نہیں چاہیے کہ پاکستان میں موجودہ وفاقی حکومت تحریک انصاف کی ہے، ایک ایسی پارٹی انصاف، جس کے نام کا حصہ ہے، پھر بھی اگر لوگوں کو انصاف نہ ملے، تو وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟

عوام کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اصولی طور پر پاکستانی عوام کو سکون تو تب ملے گا، جب حکومت اپنی یہ ذمے داری تسلی بخش طور پر پوری کرے۔ لیکن یہاں تو ملکی دارالحکومت اسلام آباد میں ہی انسداد دہشت گردی فورس کے اہلکاروں نے اکیس سالہ بےگناہ نوجوان اسامہ ندیم ستی کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اگر اسامہ کا قتل انسداد دہشت گردی کی کارروائی تھا، تو اس کے شواہد کہاں ہیں؟ کیا وہ مسلح تھا؟ اس کے پاس سے کون سے مہلک ہتھیار برآمد ہوئے تھے؟ اسے سامنے سے فائرنگ کر کے مارا گیا تھا۔ اب تک کے شواہد کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار ایک بےگناہ نوجوان شہری کے بےجا قتل کے مرتکب ہوئے۔

اسامہ ندیم ستی کی کئی سماجی حلقوں کی طرف سے ‘قتل' قرار دی جا رہی ہلاکت کے بعد متعلقہ فورس کے کسی اعلیٰ افسر نے اس انسانی جان کے ضیاع کی ذمےد اری قبول کی؟ کیا کوئی وفاقی وزیر داخلہ مستعفی ہوا؟ کیا وزیر اعظم نے فوری طور پر اسامہ ندیم ستی اور بلوچستان میں ہزارہ برادری کے کئی مزدوروں کے قتل کے تازہ ترین واقعے کو فوری طور پر یوں نوٹس لیا کہ اس کا کوئی عملی نتیجہ بھی نکلتا؟

دنیا کے ہر مہذب ملک میں کوئی بھی عام شہری خود کو پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں محفوظ تصور کرتا ہے، کیونکہ پولیس کے لیے مقدس ترین چیز قانون ہوتا ہے۔

پاکستان میں لوگ تھانوں میں داخل ہوتے ہوئے ہی ڈر جاتے ہیں کیونکہ عمومی ماحول ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس' کے محاورے کی گواہی دے رہا ہو۔ ساری ہی پاکستانی پولیس فورس یقیناﹰ بدعنوان نہیں ہے۔ لیکن کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ پولیس کسی بھی صوبے کی ہو یا قانون نافذ کرنے والے اہکار کسی بھی محکمے کے، ان میں کرپشن ہوتی ہے، کی جاتی ہے اور نظر بھی آتی ہے؟ پاکستان میں تو قانون کے سبھی محافظوں کو اس بارے میں ذہنی طور پر حساس بنانے کی بھی ضرورت ہے کہ قانون نافذ کرنے والا قانون کا محافظ ہوتا ہے، اس کی دھجیاں اڑانے والا نہیں۔

اسامہ ندیم ستی کی لاش کو اس کے اہل خانہ دفنا چکے ہوں گے یا دفنا دیں گے۔ بلوچستان میں ایک بار پھر جوکئی ہزارہ مزدور نشانہ بنا کر قتل کر دیے گئے، ان کے لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں اپنے سامنے رکھے ابھی تک احتجاج کر رہے ہیں کہ جب تک انہیں انصاف نہیں ملتا، وہ ان لاشوں کو نہیں دفنائیں گے۔ اگر یہ لاشیں مزید چند روز اسی طرح وہاں رکھی رہیں، تو ان میں سے ایک قدرتی عمل کے طور پر بو اٹھنا شروع ہو جائے گی۔

مگر یہ بو صرف ان لاشوں ہی کی نہیں ہو گی۔ یہ اس گھٹن، بےبسی اور لاقانونیت کی بو بھی ہو گی، جو پاکستانی معاشرے میں پھیل چکی ہے اور جس کے لیے قانون نافذ کرنے والے ملکی ادارے بھی اتنے ہی ذمے دار ہیں جتنے کہ کسی بھی سطح پر اقتدار میں موجود حکمران۔ اس بو کا ہر قیمت پر فوری خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ یہ کام پاکستان کا کوئی عام شہری اکیلا نہیں کر سکتا۔ یہ ان کا کام ہے، جن کو سماجی انصاف اور قانون کی بالا دستی کا ضامن ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ انہیں تنخواہ، مرتبے اور سرکاری سہولیات اسی کام کی وجہ سے ملتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں، جن کو واقعی یقین ہے کہ پاکستان سے مستقبل قریب میں سماجی ناانصافی، ظلم اور لاقانونیت کے اس تعفن کا خاتمہ ہو جائے گا؟