1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان کا حال بھی سری لنکا جیسا ہو سکتا ہے؟

3 اگست 2022

سیاسی عدم استحکام، امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر اور تیزی سے بڑھتی مہنگائی، کیا پاکستان کو بھی سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/4F4aL
Pakistan Protest und Auseinandersetzungen
تصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images

غیر ملکی فنڈنگ کے معاملے پر پاکستان کے الیکشن کمیشن کی طرف سے سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فیصلے سے ملک میں موجود سیاسی بحران کے حوالے سے تحفظات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

دوسری طرف ملک کیمعاشی صورتحال بھی حکومت کے قابو میں آتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان اسٹاف لیول کے معاہدے پر 13 جولائی کو اتفاق تو ہو گیا تھا جس کے تحت پاکستان کو 1.18 بلین ڈالر ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے تاہم یہ رقم ابھی تک پاکستان کو نہیں ملی۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کی قومی اسمبلی کو ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم  126 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ایک تحریری سوال کے جواب میں پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں کو یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کو 2022ء سے 2059ء تک 95.4 بلین ڈالر سود اور اصل رقم کی مد میں ادا کرنا ہوں گے۔

اس صورتحال میں بعض پاکستانی معاشی ماہرین کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

 معاشی امور کے ایک پاکستانی ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے یہ قرضے ناقابل برداشت ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار عبدالستار سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''پاکستان کی ایکسپوٹ کم ہو رہی ہے۔ پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور لوگ زراعت کو ترک کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے ریونیو مزید کم ہو رہا ہے۔ ریونیو مزید کم ہوگا تو ملک قرضے کیسے واپس کرے گا؟‘‘

Pakistan Protest Imran Khan
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے نہ صرف افراط زر میں اضافہ ہوا ہے بلکہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر بھی بہت کم ہوئی ہے۔تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

اس طرح کی معاشی صورتحال میں کیا پاکستان کے دیوالیہ ہو جانے کا خطرہ بھی موجود ہے؟

معروف پاکستانی ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی تاہم اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کا کبھی بھی کوئی خطرہ نہیں: ''ملکی کرنسی میں تو ویسے بھی ڈیفالٹ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ بہرحال نوٹ تو ہم چھاپ ہی سکتے ہیں، بھلے کتنا ہی غلط ہو۔‘‘

جنوبی ایشیا ہی کے ایک اور ملک سری لنکا میں جاری معاشی اور سیاسی بحران نے خطے کے دیگر ملکوں کے لیے بھی تحفظات پیدا کر دیے ہیں۔ رواں برس اپریل کے آغاز میں وہاں سیاسی تبدیلیوں سے شروع ہونے والا بحران اب اس قدر شدید ہو چکا ہے کہ ملک کے پاس ضروری اشیاء درآمد کرنے کے لیے بھی زرمبادلہ نہیں ہے۔ افراط زر کی شرح جولائی میں 60 فیصد کی حد عبور کر چکی تھی جس کی وجہ سے ملک میں شدید مہنگائی ہے۔

Proteste in Sri Lanka
سری لنکا میں جاری معاشی اور سیاسی بحران نے خطے کے دیگر ملکوں کے لیے بھی تحفظات پیدا کر دیے ہیں۔تصویر: Rafiq Maqbool/AP/dpa/picture alliance

پاکستان میں بھی عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے نہ صرف افراط زر میں اضافہ ہوا ہے بلکہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر بھی بہت کم ہوئی ہے۔ 10 اپریل کو جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو ایک امریکی ڈالر  182 روپے کا تھا جو اب 240 روپے تک پہنچ چکا ہے۔

کیا معاشی اعتبار سے پاکستان بھی سری لنکا جیسے حالات کا شکار ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے بقول مشکل سیاسی اور اقتصادی صورتحال کے باوجود پاکستان سری لنکا جیسی صورتحال کا شکار نہیں ہو گا جس کی وجہ پاکستان کی اسٹریٹیجک لوکیشن ہے: '' اسی اسٹریٹیجک لوکیشن کے سبب چائنا کا سی پیک بھی ناکامی افورڈ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اگر سی پیک ناکام ہوتا ہے تو یورپین یونین، آئی ایم ایف اور امریکا تو یہی کہیں گے کہ یہ سب سی پیک کیی وجہ سے ہے اور ہمارے اوپر دباؤ آئے گا۔ تو چائنا ہر حال میں پیسہ انجیکٹ کرے گا اور اسے ناکام نہیں ہونے دے گا۔ دوسرا امریکا کو خود بھی افغانستان کے معاملات پر ہماری سپورٹ چاہیے۔  تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے،  لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا کہ ہم ڈیفالٹ کریں گے یا ہم اس صورتحال میں جائیں گے جو اس وقت سری لنکا کی ہے۔‘‘

پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری شاید ملک میں سیاسی استحکام کے بعد ہی ممکن ہو سکے۔ عمران خان اور ان کی جماعت چاہتی ہے کہ ملک میں جلد از جلد نئے پارلیمانی انتخابات کرائے جائیں تاہم موجودہ اتحادی حکومت اس کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔