1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان مخالف بیان بازی بھارتی انتخابات کو متاثر کرے گی؟

23 مئی 2024

انتخابات میں اب تک پاکستان مخالف بیانات ماضی کی طرح جذبات کو بھڑکانے میں ناکام رہے ہیں۔ تاہم وزیر اعظم مودی کی پارٹی کا کہنا ہے کہ چونکہ 'پاکستان کشمیر میں عسکریت پسندی کو ہوا دیتا رہا ہے، اس لیے یہ ایک جذباتی مسئلہ' ہے۔

https://p.dw.com/p/4gBix
Indien Parlamentswahlen
تصویر: Hindustan Times/picture alliance

بھارتی انتخابات اب اپنے آخری مراحل میں ہیں اور اس مناسبت سے ایک پرانی ویڈیو فوٹیج، جس میں حزب اختلاف کانگریس پارٹی کے رہنما منی شنکر ایّئر کا پاکستان سے متعلق ایک بیان شامل ہے، دوبارہ گرد ش کر رہا ہے۔

بھارتی انتخابات کے دوران کشمیر میں عسکریت پسندوں کے حملے

اس ویڈیو میں تجربہ کار کانگریسی رہنما منی شنکر ایّئر پاکستانیوں کو ''بھارت کا سب سے بڑا اثاثہ'' قرار دیتے ہوئے اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنی چاہیے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بھی بیشتر رہنما منی شنکر کے خیالات کی حمایت کرتے ہیں۔

بھارتی انتخابات: کشمیر میں امیدوار کھڑا نہ کرنے کی حکمت عملی

بھارتی انتخابات میں پاکستان کا نام 

اس ویڈیو کے دوبارہ منظر عام پر آنے کے بعد ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما انتخابی مہم کے دوران کانگریس پارٹی کو پاکستان کے لیے ''نرم'' رویہ رکھنے کے طور پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم مودی کی نفرت انگیز بیان بازی سود مند یا نقصان دہ؟

گزشتہ ہفتے مودی نے ریاست بہار میں ایک ریلی میں کانگریس پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا، ''اگر پاکستان چوڑیاں نہیں پہن رہا ہے، تو ہم انہیں چوڑیاں پہنا دیں گے۔ ان کے پاس آٹا نہیں ہے، ان کے پاس بجلی نہیں ہے، اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان کے پاس چوڑیوں کی بھی کمی ہے۔''

بالاکوٹ حملے سے متعلق دنیا سے پہلے پاکستان کو بتایا تھا، مودی

مودی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے ان کی حکومت کے نقطہ نظر نے کانگریس کے برسوں کے اقتدار کے مقابلے میں کافی بڑی تبدیلی آئی ہے۔

مودی اور راہول گاندھی سے ان کی متنازع تقاریر پر جواب طلب

انہوں نے مغربی ریاست مہا راشٹر کے لاتور حلقے میں ایک انتخابی ریلی سے اپنے خطاب میں کہا، ''کانگریس کی حکومت کے دوران، خبروں کی سرخیاں یہ تھیں کہ بھارت نے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک اور ڈوزیئر پاکستان کو سونپا ہے۔ لیکن آج، بھارت ڈوزیئر نہیں بھیجتا، آج، بھارت ان کے ہی میدان میں دہشت گردوں کو مارتا ہے۔''

ہماری ضمانت پاکستان اور بھارت کے امن پر مبنی ہے، یوسف تاریگامی

الیکشن کے موسم میں پاکستان مخالف جذبات اب تک پوری طرح بھڑک نہیں سکے ہیں، البتہ بھارت کا پڑوسی ملک ایک بار پھر سے بھارتی سیاست دانوں کا ایک مناسب پنچنگ بیگ بن چکا ہے۔

بھارتی انتخابات: نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟

انتخابی ریلیوں کے دوران حکمراں جماعت بار بار پاکستان کا ذکر کر کے اپوزیشن پر حملہ کرنے کے ساتھ ہی ووٹرز کو بھی اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بھارت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ووٹرز ناراض کیوں؟

مودی کی جماعت بی جے پی کی ترجمان شازیہ علمی کہتی ہیں، '' یہ (پاکستان) بھارت کے لیے ایک جذباتی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ کشمیر میں سرحد پار سے دہشت گردی اور سن 2008 کے ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے اور سن 2019 میں نیم فوجی دستوں پر پلوامہ حملے سمیت پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی برسوں کی عسکریت پسندی نے بھارتی نفسیات پر اپنا ایک انمٹ داغ چھوڑا ہے۔

علمی نے مزید کہا، ''منی شنکر ایّئر اور فاروق عبداللہ کے ریمارکس متنازعہ اور قابل مذمت ہیں۔''

گزشتہ انتخابات میں پاکستان کی گونج

گزشتہ انتخابات میں پاکستان کا ذکر پلوامہ حملے کے حوالے سے مسلسل ہوتا رہا تھا، جس میں بھارت کے تقریبا 40 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے اس حملے کے بعد پاکستان کے بالا کوٹ میں فضائیہ سے حملہ کرنے کا دعوی کیا تھا۔اسی واقعے کے بعد یہ انتخابات ہوئے تھے، جس سے بی جے پی کو کافی فائدہ پہنچا تھا۔

پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ کا کہنا ہے کہ موجودہ انتخابی گفتگو پاکستان کی پالیسی سے زیادہ قومی سلامتی کے بارے میں ہے۔

بساریہ نے کہا، '' پلوامہ حملوں اور بھارت کے بالاکوٹ فضائی حملوں کے بعدسن 2019  میں، ہم نے بی جے پی کی طرف سے ایک مضبوط قومی سلامتی پر مبنی مہم دیکھی،۔''

سابق سفارت کار نے مزید کہا، ''اس بار، ہمیں قومی سلامتی کا کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا، سوائے اس کے کہ اس بار حکمران جماعت کشمیر اور پاکستان سے متعلق اپنی پالیسیوں کے لیے اپنے سرسہرا باندھنے کی کوشش کر رہی ہے۔''

پاکستان کا جنون یا انتخابی مہم؟

ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ایک سینیئر فیلو اور اسٹریٹجک امور کے ماہر سی راجہ موہن کا کہنا ہے کہ مودی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی شرائط کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

راجہ موہن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مودی نے اپنے بھرپور ردعمل کو یکجا کرنے کے لیے پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کی طرف اشارہ کر کے اس کی توہین کی ہے۔''

پوری مہم کے دوران وزیر اعظم مودی اور ان کی کابینہ کے ساتھیوں نے پاکستان کے اندر داخل ہو کر دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کی اپنی نئی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔''

موہن کا مزید کہنا تھا، ''پاکستان کے خلاف غیر ضروری زبانی جارحیت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کی نئی حکومت، جس کی سربراہی شریف برادران - نواز اور شہباز - کر رہے ہیں، بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اشارے کر رہی ہے۔''

پاکستان سے متعلق مودی سمیت بھارتی رہنماؤں کے مختلف بیانات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ یہ پاکستان کے ساتھ ایک غیر صحت مند جنون کی عکاسی کرنے کے ساتھ ہی انتخابی فوائد کے لئے ہائپر نیشنلزم کا استحصال کرنے کے دانستہ ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا، ''یہ بڑھتی ہوئی ملکی اور بین الاقوامی تنقید سے توجہ ہٹانے کی ایک مایوس کن کوشش کی نشاندہی کرتا ہے۔''

ص ز/ ج ا (مرلی کرشنن)

بھارتی مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ختم ہوتی ہوئی؟