1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ماسڑ جی کا مولا بخش اب بھی چلے گا؟

30 مارچ 2021

کلاس روم میں سب بچے زور و شور سے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اچانک علی چلایا کہ سر اکرم آ گئے۔ سب بچے بوکھلا کر اپنی اپنی سیٹوں کی جانب بھاگے۔ پوری کلاس میں سکوت چھا گیا۔

https://p.dw.com/p/3rMny
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

ماسٹر جی موٹا سا ڈنڈا ہاتھ میں لیے کلاس میں داخل ہوئے کیونکہ آج ٹیسٹ تھا اور اکثر طالب علم جانتے تھے کہ ان کو مار پڑنی یقینی ہے۔ سر بھی جانتے تھے کہ آج ٹیسٹ لینا ہے اور اس کے بعد اکثریت کی پٹائی بھی لگانی ہو گی تو وہ ڈنڈا ساتھ ہی لیتے آئے تھے۔ طالبعلم اور استاد دونوں کا مائنڈ سیٹ ہے کہ پٹائی تو ہونی ہی ہے۔

 ہم میں سے بہت کم ہی لوگ ایسے ہوں گے، جنہیں اپنے تعلیمی ادارے میں کوئی جسمانی سزا یا مار پیٹ سے واسطہ نہ پڑا ہو۔ یا پھر وہ معصوم جانور تو ضرور ہی بنے ہوں گے، جو بانگ دینے کی شہرت رکھتا ہے۔ اگر نہیں تو کم از کم اپنے دوستوں کی گت بنتے تو ضرور ہی دیکھا ہو گا۔ اکثر اساتذہ کرام طالب علموں کو جسمانی سزائیں دے کر ان پر وقتی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلطی اور کوتاہی کسی بھی نوعیت کی کیوں نہ ہو تصیح کے لیے جسمانی سزا ہی بہتر سمجھی جاتی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ بچے ڈر کے مارے آپ کی بات مان رہے ہیں یا دل سے آپ کی عزت کرتے ہیں۔

 یہ بات قطعاً نہیں سوچی جاتی ہے کہ یہ بچہ جسے آج جسمانی سزا دے کر سدھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ کل معاشرے میں منفی کردار نہ بن کے رہ جائے۔ حال ہی میں اسمبلی سے یہ بل پاس کیا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو مار پیٹ کا نشانہ بنانے پر قانوناً سزا ہو۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے روایتی مائنڈ سیٹ کے ساتھ اس قانون پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟

ایک تحقیق کے مطابق تقریبا 80 فیصد تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا بےجھجک دی جاتی ہے اور تقریبا 70 فیصد اساتذہ بھی ایسی سزاؤں کے استعمال کو درست اور کارآمد سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ والدین کو بھی اس قسم کی سزاؤں پر کوئی اعتراض نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں کے مقدمات کا صحیح تعین کرنا بے حد مشکل ہے۔

ایک زمانہ تھا، جب سرکاری درس گاہوں میں اساتذہ جی بھر کر پٹائی لگایا کرتے تھے۔ چھڑی، سکیل یا ڈنڈے کا بےدریغ استعمال کیا جاتا تھا۔ دیہی علاقوں میں تو بچے نہ صرف مار کھاتے تھے بلکہ اپنے استادوں کے گھر کے کام بھی پوری تندہی سے سرانجام دیا کرتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ خدمت ان کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ آج بھی آپ کو بہت سے لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ ان کے والدین اور اساتذہ نے، جو سزائیں ان کو دیں وہی ان کی کامیابی کا وسیلہ بنیں۔

آپ خود سوچیں کیا آپ کسی بچے کی بےعزتی کر کے اسے کچھ سیکھا سکتے ہیں ؟ جب آپ کسی بچے پر ہاتھ اٹھاتے ہیں تو آپ اسے صرف جسمانی طور پر ہی تکلیف نہیں دے رہے ہوتے بلکہ ذہنی اذیت سے بھی دوچار کرتے ہیں۔ بعد میں بڑے ہو کر ان بچوں میں تشدد کا زیادہ رجحان دیکھنے میں آتا ہے اور ان میں مایوسی اور افسردگی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہی سزا، جو بچوں کو وقتی طور پر کنٹرول کے لیے دی جاتی ہے، بعد میں ان کے اندر ذہنی دباؤ کا باعث بنتی ہیں۔

طالب علموں کو دی جانے والی سزاؤں کے نتیجے میں ہاتھ ٹوٹنے یا دیگر کسی معذوری کی خبریں اکثر و بیشتر سننے میں آتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی کوما میں چلا گیا تو کسی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ اس صورت حال میں یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان میں پانچ سے سولہ سال تک کے تقریبا 44 فی صد بچے سکول نہیں جاتے اور جو جاتے ہیں، ان میں سے ہر سال 35 ہزار بچے جسمانی سزاؤں کے خوف سے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔


کیا ہم نے آج تک ان بچوں کو اسکولوں میں واپس لانے کے لیے کوئی اقدامات کیے ہیں؟ پچھلے دنوں ایک مغربی معاشرے کی ویڈیو نظر سے گزری، جس میں ایک استاد بچوں سے باری باری دوستانہ ماحول میں مصافحہ کر رہا تھا۔ اسی کے ساتھ ایک اور ویڈیو بھی دیکھی، جس میں ایک مدرسے میں معلم بچوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ بچہ کہاں جانا پسند کرے گا اور دونوں میں سے کس ماحول میں اس کی دماغی نشوونما ہو سکے گی۔ یہاں اس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ بچوں کے دل میں علم کی محبت اجاگر کرنا ہر تعلیمی ادارے کی اولین شرط ہونی چاہے۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسا ماحول ہی مہیا نہیں کیا جاتا کہ کسی بچے میں مثبت سوچ اجاگر ہو۔ دیکھا جائے تو پورا تعلیمی ڈھانچا یہ ہی ہے کہ جو کتاب میں لکھا ہے وہ دوبارہ لکھ کر دکھاؤ۔ اگر کوئی نہ کر سکے تو پھر جسمانی سزا دی جانی چاہیے۔ ایک بچےکو پٹتے دیکھنا باقی کے تمام طالب علموں کے لیے بھی ذہنی اذیت کا باعث ہوتا ہے۔ اسی لئے ہم اب تک بچوں میں علم کا شوق پیدا کرنے اور اسکول کی چار دیواری میں لانے میں ناکام رہے ہیں۔

جہاں تک بات ہے قانون سازی کی تو فی الحال صرف اسلام آباد میں اگر کوئی استاد کسی بچے کو جسمانی تشدد کا نشانہ بناتا ہے تو اسے سزا اور جرمانہ بھگتنا پڑے گا جبکہ بقیہ ملک اس تبدیلی کے لیے ابھی انتظار کرے گا۔ قانون تو پہلے بھی موجود تھا لیکن اس اجازت کے ساتھ کہ نیک نیتی اور اصلاح کے لیے بچوں کو مارا جا سکتا ہے۔ لیکن اب جو بل پاس کیا گیا ہے اس کے تحت یہ مشروط اجازت بھی واپس لے لی گئی ہے، جو ایک خوش آئند بات ہے۔ لیکن اصل مسئلہ اس قانون پر عملدرآمد کا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین تو پہلے ہی اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ بچوں کو مارا پیٹا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی گھر میں یہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ پھر اساتذہ بھی نسلوں سے اسی فارمولے پر عمل درآمد کر رہے ہیں تو پھر ان واقعات کی روک تھام کیسے ہوگی؟ کیا ہر بچے کی موبائل ویڈیو بن کر وائرل ہونے کا انتظار کیا جائے گا؟

اس کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ اساتذہ کو پہلے باقاعدہ طور پر تعلیم دی جائے کہ وہ ہر بچے کی نفسیات کو سمجھ سکیں۔ انہیں یہ سیکھانا چاہیے کہ جسمانی تشدد سے آپ بچے کی تذلیل کر رہے ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ یا تو وہ بچہ تعلیم سے دور بھاگے گا اور اپنی عزت نفس کھو بیٹھے گا یا پھر کوئی انتہائی قدم اٹھائے گا۔ دونوں صورتوں میں مستقبل محفوظ نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ جسمانی سزا پوری عمر کے لیے نہ صرف اس کے دماغ کو متاثر کرے گی بلکہ اس کی پوری شخصیت کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گی۔

ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ ہم تعلیمی اداروں میں ایسا ماحول پیدا کریں، جس سے بچہ خود اس کی طرف کھچا چلا آئے نہ کہ وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو جائے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تعلیم اور آگاہی تو وہاں دی جاسکتی ہے، جہاں کوئی نظام موجود ہو۔ جس ملک میں تعلیم کا نظام منقسم اور مخدوش ہو چکا ہو وہاں کسی کو کیا فرق پڑتا ہے کہ بچے کا مستقبل کیسا ہو گا؟