1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا صرف عورت کو ہی تربیت درکار ہے؟

10 نومبر 2020

حضرت انسان ’اشرف المخلوقات کے عہدے‘ پر فائز ہونے کے بعد سے ہی اس فکر میں مبتلا نظر آتا ہے کہ عورت کا رتبہ اہم ہے یا مرد کا۔ معاشرے کی تعمیر و ترقی کا بوجھ عورت کے کاندھوں پر ہے یا مرد کے؟

https://p.dw.com/p/3l5YV
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد و زن کی تفریق سے قطع نظر معاشرے میں رہنے بسنے والا ہر فرد اپنے ہر کردار کے ساتھ معاشرے کا ایک اہم ستون ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں معروف موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں رہا۔

 قاسم علی شاہ ایک خاتون کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ اچھی بیوی کیسے بننا ہے یہ کہیں نہیں پڑھایا جاتا۔ پھر مزید فرماتے ہیں کہ عورت کی زندگی میں دو کرداروں کی بہت اہمیت ہے، جن میں سے ایک کردار ہے اچھی بیوی کا اور دوسرا کردار ہے اچھی ماں کا۔

 اور اس حوالے سے کسی اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا۔ بچی کو سکھانے کے لیے واحد ذریعہ اس کا گھر ہی ہے یعنی بچی ماں کو دیکھے اور سیکھے۔ چھتیس سیکنڈ کے اس کلپ میں اچھی ماں اور بیوی کے حوالے سے کی جانے والی بات چیت پر کئی صارفین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے کہ عورت کو مرد کی غلامی کے لیے نہیں بنایا گیا بلکہ عورت کا بطور انسان ہونا قبول کیا جائے۔

دوسری جانب چند صارفین نے ان کے بیان کی تائید بھی کی اور ان کی کوششوں کو سراہا بھی گیا کہ وہ سماج کی بہتری کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
تنقید و تعریف کا یہ سلسلہ کافی دن چلا کیونکہ تنقید کی یہ روش ہمارے سماج کا لازمی جزو بن چکی ہے۔ ہمارے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ کسی اور کی رائے ہم سے مختلف ہو۔ جیسا ہمیں نظر آرہا ہے یا جو کچھ ہماری عقل ہمیں سمجھا رہی ہے، وہ ہی درست باقی سب غلط اور کوئی ہماری رائے کے برخلاف سوچے تو اس پر تنقید کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ اس تنقید کے نتیجے میں حامی افراد بھی اپنا منہ بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔

اب اگر بات کی جائے قاسم علی شاہ کی ویڈیو کے حوالے سے لوگوں کی آراء کی تو مجھے شدید حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کیوں اس بحث میں الجھتے ہیں کہ کس کا کیا کردار اور کون اچھا کون برا ہے؟ مرد و زن دونوں ہی اس سماج کا لازمی حصہ ہیں، ایک کا کردار دوسرے سے مشروط ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

بچے تو پیدا کر لیے گندم کون پیدا کرے گا؟

خالق کی تخلیق میں ادھورا پن تلاش مت کیجیے

 

اور اگر بات کی جائے تربیت کی تو اس سے انکار ممکن نہیں کہ تربیت اگر لڑکی کو دینی ضروری ہے تو لڑکا بھی ایک متوازن شخصیت بننے کے لیے تربیت کا محتاج ہے۔

 اگر لڑکی ماں اور بیوی کے کردار میں اہم ہے تو باپ یا شوہر بھی خاندان کی مضبوطی میں ریڑھ کی ہڈی کہلاتا ہے۔ ماں اور باپ دونوں مل کر ہی ایک صحت مند خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں۔ کوئی ایک کردار دوسرے کی کمی کبھی پوری نہیں کر سکتا۔

 اس بات کی صداقت سے بھی انکار نہیں کہ بچوں کے لیے پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے تو باپ بھی اس تربیت گاہ کا ایک اہم کردار ہے۔ کسی بھی بچے کی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ گھر کا ماحول سازگار ہو اور اس ماحول کو بنانے والے ماں اور باپ دونوں ہی ہیں۔

 ہم بات کرتے ہیں کہ لڑکیوں کے لیے اچھی بیوی اور اچھی ماں بننے کی تربیت ضروری ہے تو ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ رشتے نبھانے والے میاں بیوی اور قربانی دینے والے ماں باپ کی تربیت کی ضرورت ہے؟

گھر سے ہی بچے کی شخصیت کی بنیاد پڑتی ہے اور پھر اسکول کی باری آتی ہے۔ یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اسکول بچے کی تربیت میں معاون ہوتا ہے اور ایک وقت تھا، جب تعلیم و تربیت ایک دوسرے سے باہم مربوط تھے۔

 پھر وقت نے اپنا رنگ دکھایا اور تربیت کو تعلیم کے میدان سے رخصت کر دیا گیا۔ اس کے بعد تعلیم کا بھی جنازہ نکل گیا۔ آج ہم جس طرح کی تعلیم اپنے بچوں تک پہنچا رہے ہیں وہ تعلیم کے نام پہ صرف کتابوں کا بوجھ ہے، جسے بچوں پہ لادن دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ ادارے صرف پیسہ بنا رہے ہیں اور سرکاری اداروں کا حال دوسری جنگ عظیم میں تباہ شدہ کشتی جیسا ہے۔ لہذہ ان اداروں سے تربیت کا معاملہ توعبث ہے۔

قاسم علی شاہ صاحب کے خیالات کسی حد تک ٹھیک بھی ہیں کہ لڑکی کی تربیت میں ماں کا کردار اہم ہے لیکن صرف لڑکی کے بجائے انسان کی تربیت کی بات کی جائے تو زیادہ مناسب ہے۔

ایک اچھا انسان جب والدین کے رتبے پر فائز ہو گا تو امید کی جا سکتی ہے کہ اپنے بچے کی تربیت بھی بہتر کرے گا۔

 ذرا اس گھر کے ماحول کا تصور کریں، جہاں باپ نشئی اور جواری ہو جبکہ عورت اچھی بیوی اور اچھی ماں کا کردار نبھاتے ہوئے محنت کر کے گھر کی گاڑی گھسیٹ رہی ہو۔ کیا یہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو پوری توجہ سے پال سکے؟ یا پھر ایک ایسا گھر، جس میں ایک خودپسند عورت جو گھر کی دیکھ بھال کو غلامی سمجھتی ہو، گھر کے معاملات میں بالکل تعاون نہ کرے، فقط اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتی ہو تو ایسی صورتحال میں ایک اچھا تربیت یافتہ باپ بھی تنہا اولاد کی بہترین تربیت نہیں کر پائے گا۔

 اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ زور اچھا انسان بننے پر دیا جائے۔ مضبوط شخصیت اور باشعور شہری بننے پر دیا جائے۔ بنیادی عناصر درست ہوں گے تو گاڑی درست سمت میں ہی چلے گی۔