1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا جرمنی میں کوئی شہزادے، شہزادیاں بھی باقی بچے ہیں؟

مقبول ملک الزبتھ گرینیئر / ع ح
15 اگست 2019

جرمنی آج ایک وفاقی جمہوریہ ہے۔ جرمن ریاست میں شاہی حکمرانی کا نظام سو سال قبل ختم ہو گیا تھا۔ تو کیا جرمنی میں آج بھی شہزادے اور شہزادیاں دیکھنے اور سننے میں آتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہاں میں ہے، جس کی اپنی وجوہات ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Nx8c
BG Forggensee | Schloss Neuschwanstein im Herbst, Ostansicht, Blick von der Marienbrücke, Forggensee, Schwangau, Allgäu, Bayern, Deutschland, Europa
جنوبی جرمن صوبے باویریا کا مشہور زمانہ نوئے شوان شٹائن محلتصویر: picture-alliance/imageBROKER/J. Beck

جرمنی کے محلات سیاحوں کے لیے انتہائی پرکشش ہوتے ہیں۔ لیکن سارے بادشاہ، ملکائیں، شہزادے اور شہزادیاں کہاں چلے گئے؟ اس بات کو سمجھنا تھوڑا سا مشکل بھی ہے۔ آج سے ایک صدی قبل 14 اگست 1919ء کو جرمنی میں اس دور کا وہ نیا ریاستی آئین نافذالعمل ہو گیا تھا، جس پر جرمنی کے پہلے صدر نے دستخط کیے تھے تو ساتھ ہی وائیمار ریپبلک کے نام سے ایک جرمن ریاست وجود میں آ گئی تھی۔

Kaiser Wilhem II von Preußen
قیصر وِلہیلم دوئم آف پرُوشیاتصویر: picture-alliance/Mary Evans Picture Library

اس آئین کے تحت جرمن شاہی اشرافیہ کے ارکان کے تمام عہدے، خطابات اور انہیں حاصل مراعات ختم کر دی گئی تھیں۔ اسی لیے سرکاری طور پر اب گزشتہ ایک صدی سے جرمنی میں کوئی شہزادے شہزادیاں نہیں ہوتے۔ لیکن آپ کو آج بھی کہیں نہ کہیں چند 'شاہی‘ شخصیات کے بارے میں خبریں سننے اور دیکھنے کو ملیں گی۔ اس لیے کہ 14 اگست 1919ء کے روز جرمن اشرافیہ کے سبھی ارکان ظاہر ہے غائب تو نہیں ہو گئے تھے۔

اب کوئی حقیقی شہزادہ نہیں

آلبرٹ پرنس آف تُھؤرن اور ٹاکسز ہی کی مثال لے لیجیے۔ وہ 1983ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ جرمنی کے ایک سابقہ شاہی خاندان کے 'سربراہ‘ ہیں اور اگر آج بھی شاہی نظام حکومت رائج ہوتا تو ان کا پورا شاہی نام یہ ہوتا:

''عالی مرتبت آلبرٹ، تُھؤرن اور ٹاکسز کے بارہویں پرنس، پرنس آف بُوخاؤ، پرنس آف کروٹوسین، وئرتھ اور ڈوناؤشٹاؤف کے ڈیوک، فرِیڈبیرگ شیئر کے نواب اور وال ساسینا، مارشٹال اور نیریس ہائم کے کاؤنٹ، وغیرہ وغیرہ‘‘

Albert von Thurn und Taxis bei Autorennen
پرنس آلبرٹ فان تُھؤرن اینڈ ٹاکسز ایک بہت کامیاب بزنس مین بھی ہیں اور موٹر ریسنگ کے دلدادہ بھیتصویر: picture-alliance/wildbild/N. Kolackovsky

انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی کی جرمن شاہی اشرافیہ کے رکن اس خاندان کے پاس اتنی جاگیریں تھیں اور اتنے زیادہ علاقے اس خاندان کی حکمرانی میں تھے کہ پرنس آلبرٹ کے بہت طویل 'شاہی‘ نام میں 'وغیرہ وغیرہ‘ بھی باقاعدہ طور پر اس نام کا حصہ ہے۔ اس لیے کہ اگر سبھی شاہی القابات کو اس بہت طویل نام میں شامل کیا جاتا تو یہ اور بھی طویل ہو جاتا۔

شاہی القابات کے آخری حصے لکھنے کی اجازت

وائیمار ریپبلک کے آئین کے تحت جرمنی کی سابق شاہی اشرافیہ کے ارکان کے لیے نسل در نسل چلنے والے مکمل خطابات اور القابات کو تو ختم کر دیا گیا تھا لیکن انہیں یہ اجازت دے دی گئی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے ذاتی ناموں کے آخر میں اپنے اپنے شاہی ناموں کے آخری حصے لکھ سکتے ہیں۔

اس لیے 'پرنس‘ آلبرٹ کے نام میں جرمن زبان کے لفظ Prinz کا ترجمہ عملی طور پر 'پرنس‘ کے طور پر اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ سچ مچ کے کوئی شہزادے تو نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب قانونی اور عملی طور پر ان کا نام آلبرٹ فان تُھؤرن اینڈ ٹاکسز ہے، یعنی 'تُھؤرن اینڈ ٹاکسز کے آلبرٹ‘۔

Flash-Galerie Hochzeit von Georg Friedrich Prinz von Preußen und Sophie Prinzessin von Isenburg
جرمنی کے آلیکزانڈر کاؤنٹ آف شاؤم برگ لِپے اپنی اہلیہ نادیا آنا کے ہمراہتصویر: picture alliance/dpa

دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی افراد میں سے ایک

آلبرٹ فان تُھؤرن اینڈ ٹاکسز کے والد کا انتقال 1990ء میں ہوا تو ان کے والد کی تمام تر دولت انہیں منتقل ہو گئی۔ وہ آج بھی جرمنی میں ہائی سوسائٹی اور لائف سٹائل جریدوں میں سرخیوں کا موضوع بنے رہتے ہیں، جس کی ایک وجہ ان کی بے شمار دولت بھی ہے۔ ان کا خاندان جرمنی میں سب سے بڑے نجی جنگلاتی رقبے کا مالک ہے۔

جب انہیں ان کے والد کی خاندانی املاک وراثت میں ملیں تو امریکا کے فوربس میگزین نے انہیں 'دنیا کے سب سے کم عمر ترین ارب پتی افراد‘ کی فہرست میں نمایاں جگہ دی تھی۔ ماضی کی جرمن شاہی اشرافیہ کے اس نمائندے نے دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی، لیکن ساتھ ہی وہ ایک بہت کامیاب بزنس مین بھی ہیں اور موٹر ریسنگ کے بہت دلدادہ بھی۔

آخری جرمن بادشاہ کے پوتے کے پوتے

اسی جرمن شاہی اشرافیہ میں ایک اور بہت اہم نام گیورگ فریڈرش فان پروئسن کا بھی ہے۔ وہ جرمنی کے آخری قیصر یا بادشاہ وِلہیلم دوئم کے پوتے کے پوتے ہیں۔ ان کے خاندان کو 'ہاؤس آف ہوئہن سولرن‘ کہا جاتا ہے۔

Flash-Galerie Hochzeit von Georg Friedrich Prinz von Preußen und Sophie Prinzessin von Isenburg
جرمنی کے پرنس گیورگ فریڈرش فان پروئسن کی شہزادی صوفیہ آف ایزن برگ کے ساتھ شادی کے موقع ہر لی گئی ایک تصویرتصویر: picture alliance/dpa

ان کے دادا اور قیصر وِلہیلم دوئم کے پوتے لوئس فرڈینانڈ فان پروئسن نے 1991ء میں جرمن ریاست کے خلاف ایک مقدمہ بھی دائر کر دیا تھا، جس میں ان کے خاندان کی ملکیت برلن اور اس کی ہمسایہ (موجودہ) وفاقی جرمن ریاست برانڈن برگ میں واقع بہت سی اراضی اور محلات کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اہم بات یہ ہے کہ جرمنی میں ایک نظام کے طور پر ماضی کی شاہی اشرافیہ تو ایک صدی ہوئی عملی طور پر ختم ہو چکی لیکن اس کی باقیات اور مختلف شاہی خاندانوں کی سماجی حیثیت آج کے جرمن معاشرے میں بھی اپنا محدود لیکن منفرد کردار ادا کرتی ہے۔

سیاسی طور پر موجودہ جرمنی میں ایک بحث یہ بھی ہے کہ جب شاہی اشرافیہ ہی ختم ہو چکی تو اس کے ارکان کی موجودہ نسلوں کے ناموں کے ساتھ لکھے جانے والے پرانے القابات کے آخری حصے بھی قانونی طور پر ختم کر دیے جانا چاہییں۔ لیکن یہ ایک ایسی متنازعہ بحث بھی ہے، جس سے بہت سی جرمن سیاسی جماعتیں بچنا چاہتی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں