1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

کيا افغانستان ميں داعش کا زور ٹوٹ رہا ہے؟

2 اگست 2020

افغان حکام نے 'اسلامک اسٹيٹ‘ کے ايک سينئر رکن کی ہلاکت کا دعویٰ کيا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ ميں داعش کے حملوں ميں نماياں کمی نوٹ کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3gHO8
Afgahnistan Silhouette
تصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzada

افغان انٹيليجنس سروس نے ملک ميں اسلامک اسٹيٹ کے ايک سينئر اہلکار کی ہلاکت کا دعوی کيا ہے۔ نيشنل ڈائريکٹوريٹ آف سکيورٹی نے ہفتے کی رات ايک بيان جاری کيا، جس ميں کہا گيا ہے کہ شدت پسند تنظيم داعش کے ليے انٹيليجنس ليڈر کے طور پر سرگرم اسد اللہ اورکزئی کو مشرقی افغانستان ميں جلال آباد کے قريب سکيورٹی فورسز کے ايک آپريشن ميں ہلاک کر ديا گيا۔ اورکزئی پر شبہ تھا کہ وہ افغانستان ميں سويلين اور عسکری اہداف پر کئی حملوں ميں ملوث تھا۔

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان ميں جنگی آپريشنز کے دوران زخمی اور ہلاک ہونے والے شہريوں کی تعداد ميں رواں سال کے پہلے چھ ماہ ميں پچھلے سال اسی عرصے کے مقابلے ميں تيرہ فيصد کی کمی نوٹ کی گئی ہے۔ يہ کمی دو وجوہات کی بنا پر ہوئی ہے۔ افغانستان ميں تعينات غير ملکی دستے اب شدت پسندوں کے خلاف کارروائی خود نہيں کرتے بلکہ افغان سکيورٹی فورسز کی جانب سے مدد طلب کيے جانے پر کارروائيوں کا حصہ بنتے ہيں، جس سے شہريوں کی ہلاکت ميں کمی ہوئی ہے۔

مزيد يہ کہ داعش کے حملوں ميں بھی کمی آئی ہے۔ اقوام متحدہ کی گزشتہ ہفتے جاری کردہ ايک رپورٹ کے مطابق افغانستان ميں رواں سال کے پہلے چھ ماہ ميں داعش نے سترہ حملے کيے، جن ميں شہری زخمی يا ہلاک ہوئے۔ پچھلے سال اسی عرصے ميں حملوں کی تعداد ستانوے تھی۔ رواں سال کے پہلے چھ ماہ ميں اسلامک اسٹيٹ کے حملوں ميں مجموعی طور پر 1,282 افراد ہلاک ہوئے جبکہ جبکہ پچھلے سال جنوری تا جون يہ تعداد 2,176 تھی۔

افغان امن عمل ميں پيش رفت کا امکان

دريں اثناء فروری ميں امريکا اور طالبان کے مابين طے پانے والی امن ڈيل آہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ عيد کے موقع پر افغان طالبان نے تين روزہ جنگ بندی کا اعلان کيا، جسے کابل حکومت نے کھلے دل سے قبول کيا۔ ماضی ميں جنگ بندی کے دعووں کے برعکس اس بار اس جنگ بندی پر حقيقی عملدرآمد جاری ہے اور اتوار تک موصولہ اطلاعات کے مطابق ملک کے بيشتر حصوں ميں کسی بڑے واقعے کی اطلاع نہيں۔

اسی دوران افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے مزيد پانچ سو قيديوں کو بھی رہا کر ديا، جس سے يہ اميڈ بھی پيدا ہو گئی ہے کہ کافی عرصے سے تعطل کے شکار مذاکرات شايد اب جلد شروع ہو سکيں۔

ع س / ع ت )اے پی(

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید