کورونا وائرس: لاک ڈاؤن کی زد میں آنے والا پہلا جرمن شہر
19 مارچ 2020یورپ میں فرانس، آسٹیریا اسپین اور اٹلی جیسے ممالک نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے اپنے مختلف شہروں میں پہلے ہی کرفیو نافذ کر رکھا تھا۔ تاہم جرمنی نے اب تک اس طرح کے اقدامات نہیں کیے تھے۔ البتہ صوبے باویریا کے ایک چھوٹے شہر مٹرٹائش میں پہلی بار کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گيا ہے۔ شہر کے لوگوں سے کہا گيا ہے کہ جب تک کوئی بہت ضروری وجہ نہ ہو وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
اس نئے حکم کے تحت شہر کے لوگوں کو ملازمت کے لیے اگر جانا بہت ضروری ہو، تو انہیں آمد و رفت کے لیے دفتر سے ایک اجازت نامے کی ضرورت ہوگی۔ لوگوں کو کچھ لینے کے لیے بھی اسی وقت گھر سے باہر جانے کی اجازت ہے جب کوئی چیز لینا بہت ہی ضروری ہو، البتہ مختلف اشیا ڈیلیور کرنے والے افراد کو جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص باہر ملا تو پولیس کو اس سے پوچھ گچھ کرنے کا اختیار دیا گيا ہے۔ شہر میں ان احکامات کا نفاذ جمعرات انیس مارچ سے ہو گیا ہے۔
حکام نے چیک سرحد پر ٹرشنروئٹ ضلعے میں اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ''بغیر کسی ضروری جواز کے گھر سے باہر نکلنا منع ہے۔‘‘ اس شہر میں تقریبا ساڑھے چھ ہزار افراد رہتے ہیں اور ضلعے میں اب تک 38 افراد کے کورونا وائر سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ شہر میں یہ امتناعی احکامات آئندہ 2 اپریل تک نافذ رہیں گے۔ یوروپ کے کئی ممالک نے اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اس طرح کے لاک ڈاؤن کے سخت احکامات پہلے سے نافذ کر رکھے ہیں لیکن جرمنی میں ایسا پہلی بار کیا گيا ہے۔
فرانس، آسٹیریا، اٹلی اور اسپین نے تو اپنے کئی شہروں میں پہلے سے لاک ڈاؤن کر رکھا ہے لیکن جرمنی نے کرفیو نافذ کرنے کیبجائے لوگوں کو گھروں میں رہ کر کام کرنے اور ایک دوسرے سے رابطہ نہ رکھنے کی حکمت عملی اپنانے کی تلقین کر رکھی ہے۔ ٹرشنروئٹ کے میئر رولینڈ گرلمائیرنے ایک مقامی اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''اپنی اور اپنے ساتھی شہریوں کی صحت کا خیال کریں اور پابندیوں پر سنجیدگی سے عمل کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات شہر میں کووڈ انیس کو مزید پھیلنے سے باز رکھنے کے لیے احتیاطی تدبیر ہے۔ بویریا کے چھوٹے سے شہر ٹرشنروئٹ میں گزشتہ دو روز میں کورونا سے متاثرین کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ حکام نے پورے شہر میں زبردست بیداری مہم شروع کی ہے اور پابندیوں سے متعلق آگاہ کرنے کے لیے لوگوں کے گھروں کے دروازوں پر پرچیاں چھوڑی جا رہی ہیں۔
ز ص/ ک م/ رائٹرز، ایف پی، اے ایف پی