1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس: سیاسی جماعتوں کی پوائنٹ اسکورنگ کی کوششیں

8 اپریل 2020

کرونا وائرس سے جوجتی پاکستانی قوم کو حکومتی بدانتظامی کے باعث دوہری مشکلات کا سامنا ہے۔ ابھی تک ملکی سطح پر کوئی ایسا نظام وضع نہیں کیا گیا، جس سے سطح غربت اور اس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی داد رسی کی جا سکے۔

https://p.dw.com/p/3acyT
Lockdown Peshawar Pakistan
تصویر: DW/Fareedullah Khan

تجزیہ کاروں کی رائے میں وفاقی حکومت سے لےکر بلدیاتی اداروں تک سب سیاست کرنے میں مصروف ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے احساس پروگرام کے نام سے امدادی پروگرام متعارف کرایا، جس کے تحت غربا اور مستحق افراد کو راشن اور نقد امداد کا پورٹل بنایا گیا۔ اس کی ہر سطح پر تشہیر بھی گئی تاہم اس کے نمبر پر شناختی کارڈ نمبر ٹیکسٹ میسج بھیجنے پر پہلے متعلقہ ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی ہدایت کا جوابی میسج موصول ہوتا تھا اور اب جواب موصول ہو رہا ہے، ''اہلیت کے بارے میں کوائف کی جانچ پڑتال کے بعد مطلع کیا جائے گا۔‘‘سندھ حکومت نے بلاشبہ کرونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے بروقت اور راست اقدامات اٹھائے لیکن راشن کی تقسیم تاحال ان  کے لیے بھی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔

Pakistan Essensausgabe während Coronakrise
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ اس حوالے سے سندھ حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیر اعلٰی سندھ صرف اعلانات کرتے ہوئے وقت گزارنے میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا تھا،''عملی طور پر سندھ حکومت کچھ نہیں کر رہی، کراچی میں تو پھر بھی رفاحی اداروں نے صورت حال سنبھالی ہوئی ہے لیکن اندرون سندھ تو فاقوں کی نوبت آچکی ہے، کورونا کا خوف پیدا کر کے مراد علی شاہ اور وزراء لوگوں کو بھوکا ماردیں گے۔‘‘

19 مارچ کو وزیر اعلٰی سندھ نے صوبہ بھر میں 20 لاکھ راشن بیگ تقسیم کرنے کا اعلان کیا تاہم امداد کے لیے ساڑھے تین ارب روپے جاری ہونے میں ہی 5 روز لگ گئے اور پھر اعلان کیا گیا کہ ضرورت مندوں کے لیے واٹس ایپ نمبر متعارف کرایا جائے گا مگر وہ بھی ابھی تک نہ ہو سکا اور پھر تین رکنی کمیٹی بنا دی گئی اور اس کمیٹی کو راشن اور امدادی رقم کی تقسیم کا ضابطہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جو تاحال امداد کی تقسیم کا نظام وضع کرنے میں مصروف ہے۔

  اس حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے ڈوچے ویلے کو بتایا کہ سندھ حکومت کو صورت حال کا ادراک ہے اور اسی لیے وزیر اعلٰی سندھ نے 24 مارچ کو راشن کے لیے تقریباﹰ ساڑھے تین ارب روپے منظور کیے تھے۔ ناصر شاہ کے مطابق،''صوبہ کے ہر ضلع کے لیے 2 کروڑ روپے ڈپٹی کمشنرز کو دیے جا چکے ہیں تاکہ راشن کی فوری خریداری اور تقسیم ممکن ہو سکے۔ ابتدائی طور پر فی خاندان 15 دن کا راشن فراہم کیا جائے گا اور اگلے مرحلے میں مزید نقد امداد کی فراہمی بھی زیر غور ہے۔‘‘

مبصرین کے مطابق تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے وفاقی اور صوبائی سطح پر امدادی فنڈ قائم کردیے ہیں لیکن دونوں جماعتوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو سیاسی نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ نہ تحریک انصاف بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو کسی قسم کا کریڈٹ دینے کو تیار ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی اس بڑی اور نچلی سطح پر موجود اس ورک فورس کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔

National Trade Union Federation Zusammenarbeit mit Edhi Foundation in Islamabad Pakistan
تصویر: DW/A. Sattar

 تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی نمائندوں کی اکثریت ن لیگ کی ہے لہذا انہیں بحال کرنے کی بجائے ٹائیگر فورس کا شوشہ چھوڑا گیا جبکہ سندھ میں بلدیاتی نمائندے موجود تو ہیں لیکن کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کی بلدیاتی حکومتیں ہیں اور اس خدشہ کے پیش نظر کہ کریڈٹ کہیں ایم کیو ایم کو نہ چلا جائے لہذا ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے فی ضلع 2 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے ہیں لیکن ان پیسوں سے امداد کب تقسیم ہو گی کوئی نہیں جانتا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سیاسی رسہ کشی سے دور فلاحی ادارے بڑے پیمانے پر امداد کی تقسیم کا نظام بہتر طور پر چلا رہے ہیں۔ راشن کی تقسیم کا سلسلہ لاک ڈاؤن کے آغاز سے ہی شروع کردیا گیا تھا مگر جب تقسیم میں پیشہ ور بھکاریوں کے داخل ہونے کی شکایات موصول ہوئیں تو فلاحی تنظیموں نے اپنے علاقائی نیٹ ورک کو فعال کرتے ہوئے راشن ضرورت مندوں کے لیے گھروں کی دہلیز پر پہنچانا شروع کر دیا ہے اور ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی رفاحی ادارے نے اب تک امداد  کے لیے چندے اور عطیے کی تاحال کوئی اپیل نہیں کی ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان کے فلاحی ادارے الخدمت نے ملک گیر سطح پر نہ صرف راشن کی تقسیم انتہائی منظم انداز میں شروع کر رکھی ہے بلکہ شہروں کے ساتھ گاؤں دیہاتوں میں بھی جراثیم کش اسپرے کیا جا رہا جاری ہے۔ مساجد کے ساتھ، گرجا گھروں، مندروں کو بھی جراثیم سے پاک رکھنے کے لیے اسپرے کیے جا رہے ہیں۔ غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ معاشرے کی جانب سے نظر انداز کیے جانے والے  طبقے خواجہ سراؤں تک کو امداد کی فراہمی ممکن بنائی گئی ہے۔

ایدھی فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ اور جعفریہ ڈیزاسٹر سیل سمیت مختلف سماجی تنظیمیں اپنے اپنے طورپر وہ کام سرانجام دے رہی ہیں جو دراصل حکومت کے کرنے کی ہیں۔ اگر حکومتوں میں موجود لوگ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کو پس پشت ڈال کر ان ہی فلاحی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے تو امداد کی تقسیم انتہائی احسن طریقے سے ممکن ہوسکتی تھی۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم کہتے ہیں کہ الخدمت فاؤنڈیشن ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی سمیت پورے سندھ میں متحرک ہے، اور سرکاری ہسپتالوں اور محکمہ پولیس کو بھی حفاظتی سامان فراہم کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے علاقائی سطح پر راشن تقسیم کیا جارہا ہے، ''کوئی لائن نہیں لگتی اور نہ ہی کسی کا شناختی کارڈ چیک کیا جاتا ہے، جماعت اسلامی کے ذمہ داران سارا سال علاقوں میں موجود ہوتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ کون ضرورت مند ہے، رات کے اوقات میں ضرورت مندوں کو راشن گھر کی دہلیز پر پہنچا دیا جاتا ہے۔‘‘

بعض فلاحی تنظیموں نے شکایت کی ہے کہ سیاسی جماعتیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نمایاں ہیں، ان سے غریبوں میں راشن تقسیم کرنے کے لیے بعض جبری طورپر اور بعض رضاکارانہ طورپر مدد طلب کرتے ہیں تاکہ اپنے اپنے حلقے میں اپنے پارٹی کے پرچم لگا کر انہیں تقسیم کریں اور یہ تاثر نمایاں ہو کہ ان کی مدد یہ سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔

’روزگار نہیں ہوگا تو بھوکے مر جائیں گے‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں