1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کم عمری کی شادی، پی ٹی آئی منقسم

بینش جاوید
1 مئی 2019

پاکستان میں کم عمری کی شادی کے خلاف بل کو سینیٹ میں منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چند اراکین کی جانب سے اس بل کی مخالفت پر اس جماعت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3HlHq
Kinderehe Kinderbräute Braut und Bräutigam Hochzeit Kinderhochzeit
تصویر: Getty Images/A. Joyce

ایوان بالا سے منظور ہونے کے بعد کم عمری کی شادیوں کے خلاف بل اس ہفتے منگل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ بل کے حوالے سے کئی اراکین پارلیمان کی رائے منقسم نظر آئی۔ 50 اراکین پارلیمان نے اس بل کے حق اور 72 اراکین نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیے۔ قومی اسمبلی کے نائب اسپیکر قاسم سوری نے اس بل کو متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔ مذہبی امور کے وزیر نور الحق قادری اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے اس بل کی بھر پور انداز میں مخالفت کی اور اسے غیر اسلامی قرار دیا۔ تاہم وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بل کی حمایت کی اور قومی اسمبلی کے نائب اسپیکر کو بل کو متعلقہ کمیٹی کو بھجوانے کا کہا۔ اس بل میں کہا گیا ہے کہ کم عمری کی شادی کرانے والے شخص کو ایک لاکھ روپے جرمانہ اور تین سال کی قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

سینیٹ میں یہ بل پیش کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،'' کم عمری کی شادی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ پاکستان میں ہر بیس منٹ میں ایک خاتون بچے کی پیدائش کے دوران ہلاک ہو جاتی ہے۔ پی ٹی آئی اس حوالے سے بتائے کہ اس کی پوزیشن کیا ہے ؟ سیاسی جماعتیں مل کو ووٹ ڈالتی ہیں۔ آپ کابینہ میں ہیں اور منقسم ہیں۔ آپ کی وزیر برائے انسانی حقوق بل کی حمایت کر رہی ہیں اور وزیر برائے پارلیمانی امور اس کے خلاف ہیں۔‘‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے سائنس فواد چوہدری نے اس معاملے پر اپنی آراء دیتے ہوئے ٹویٹ میں لکھا،’’کم عمری کی شادی کے خلاف سب سے پہلی قانون سازی قائد اعظم نے کی تھی۔ جب تک پاکستان میں یہ فیصلہ نہ ہو کہ ملا نے راج کرنا ہے یا شعور نے، ترقی کا خیال بھی بھول جائیں، ایک تماشہ لگا ہوا ہے ایسی ایسی جاہلانہ بات ہوتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، ملک اور قومیں ایسے ماحول میں ترقی نہیں کرتیں۔‘‘

فواد چوہدری کے اس بیان کو سوشل میڈیا پر کافی سراہا گیا۔ ٹوئٹر کی صارف منیزا احمد نے فواد چوہدری کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا،’’  1400 سال پہلے الگ دور تھا۔اس  وقت حالات کے مطابق وہ ٹھیک تھا لیکن اب وقت بدل گیا ہے اور اس کے ساتھ رسم و رواج بھی۔ اب لڑکی کے لیے تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے تاکے وہ اپنی آنے والی نسل کی تربیت بہتر انداز میں کر سکے اور اپنے گھر والوں کی معاشی مدد کے بھی قابل ہو۔‘‘

صحافی حامد میر نے ٹویٹ میں اپنے فولورز سے سوال کیا ،’’ کم عمری میں شادی کی ممانعت کا بل تحریک انصاف کے رکن اسمبلی نے پیش کیا اور تحریک انصاف کے اپنے تین وزراء نے بل کی مخالفت کی باقی حمایت کرتے رہے جس حکومت کے وزراء ایک نہ ہوں وہ حکومت کامیاب ہو سکتی ہے یا نہیں ؟‘‘

اقوام متحدہ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک یا 21 فیصد پاکستانی خواتین کی شادی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے اور  تین فیصد کی شادی پندرہ سال سے پہلے۔ اقوام متحدہ کے مطابق کم عمری کی شادیوں کے باعث بچیاں اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں اور ان کے گھریلو تشدد کا شکار بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ کم عمری میں ماں بننا بہت سی لڑکیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔