1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک کا سرکس

3 جنوری 2021

ہم اس بات کی شکایت تو برملا کرتے ہیں کہ ترقیاتی کام نہیں ہوئے۔ سڑکوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ ٹریفک اہلکاروں کی بدعنوانی بھی حقیقت ہے۔ لیکن کیا ہمارا رو یہ ان مسائل میں اضافہ نہیں کر رہا؟ طاہرہ سید کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3nT9i
تصویر: Privat

پچھلے ہفتے ایک مصروف شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے ایمبولینس کی آواز پر ڈرائیور نے فاسٹ لین چھوڑ دی۔ ایمبولینس جیسے ہی آگے نکلی اس کے پیچھے گاڑیوں کی ایک قطار تھی ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ کوئی پروٹوکول کی گاڑیاں ہیں جو ساتھ چل رہی ہیں۔ آپ سب بھی اس منظر سے بخوبی واقف ہوں گے کہ لوگ ایمبولینس کے پیچھے کیوں چلتے ہیں لیکن اس بار جو نتیجہ برآمد ہونے والا تھا وہ انتہائی غیر متوقع تھا۔ ایمبولینس ڈرائیور کو اچانک سے ایمرجنسی بریک لگانی پڑی . پیچھے چلنے والی گاڑیاں یہ سوچ کر محفوظ فاصلہ اور مناسب رفتار نہیں رکھے ہوئے تھیں کہ ایمبولینس کو تو عموما سبھی راستہ دے دیتے ہیں اور ہم بھی اس ایمبولینس کے پیچھے پیچھے اپنی منزل پر جلد پہنچ جائیں گے۔ ایمبولینس کے اچانک بریک لگانے کے نتیجے میں پچھلی گاڑیاں ایک زور دار دھماکے سے آپس میں ٹکرا گئیں۔ انتہائی افسوس ناک حادثہ صرف لوگوں کی لاپرواہی کے نتیجہ میں پیش آیا۔

ہماری قوم نے ٹریفک قوانین کو تو خیر سے ہمیشہ ہی اپنی جوتی کی نوک پر رکھا ہے اس کے علاوہ جو کرتب بازی دکھائی جاتی ہے وہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بیچ سڑک پر جاتے دائیں بائیں موٹر سائیکل سوار ایسے کٹ مارتے نکل جاتے ہیں جیسے موت کے کنوائیں میں ریس لگا رہے ہوں۔ یہ وہ مخلوق ہے جو کبھی بھی کہیں سے بھی اچانک نمودار ہو کر زگ زیگ کرتے نکل جائیں گے۔ کچھ بھروسہ نہیں کہ آگے جا کر بریک لگا کر رکیں گے یا کسی سے ٹکرا کررکیں گے۔ موٹر سائیکل سواروں کے علاوہ ایک اور مخلوق رکشہ ڈرائیور حضرات کی بھی پائی جاتی ہے جو ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کرتب دکھاتے چلتے ہیں۔ ان کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہوتا کہ چلتے چلتے اچانک خیال آ جائے کہ انہیں تو دائیں جانب نہیں بائیں جانب جانا تھا۔ ایک مسئلہ ان رکشوں میں موجود سواریوں کا بھی ہوتا ہے جنہیں آخری منٹ میں یاد آتا ہے اس موڑ پر رکشہ دائیں طرف نہیں بائیں طرف لینا ہے۔ اور رکشہ ڈرائیور تو کیونکہ ایسے کرتب دکھانے میں مہارت رکھتا ہے لہذا وہ ایک سیکنڈ نہیں لگاتا، تمام ٹریفک کو کراس کرتے ہوئے سڑک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر رکشہ لے جاتا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں ٹریفک قوانین صرف بنائے جاتے ہیں لاگو نہیں کیے جاتے۔ ہم میں سے کوئی بھی شخص ان قوانین کا اطلاق ہرگز ضروری نہیں سمجھتا لہذا اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ان قوانین کو روندتا چلا جاتا ہے، چاہے وہ پڑھا لکھا شخص ہو یا کوئی بیچارہ ان پڑھ ڈرائیور۔ یہی رویہ کار والے حضرات کا بھی نظر آتا ہے جنہیں اپنی گاڑی میں موجود انڈیکیٹر کا آپشن یا تو نظر نہیں آتا یا اس کا استعمال غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ انڈیکیٹر آپ کے پیچھے آنے والی گاڑیوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ آپ آخر کس سمت میں مڑنے والے ہیں۔ لیکن ہم ڈرائیونگ کرتے ہوئے چونکہ بہت مصروف ہوتے ہیں تو انڈیکیٹر دینے کا خیال ہی نہیں آتا یا پھر جب خیال آتا ہے تو پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔ لیکن ہم بغیر پرواہ کیے باآسانی فاسٹ لین سے بائیں طرف مڑ جاتے ہیں اور اگر پیچھے آنے والے ٹریفک کو ایمرجنسی میں رکھنا پڑے تو اس میں ہمیں کچھ لینا دینا نہیں۔ کچھ ایسا ہی رویہ ٹریفک سگنلز پر بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ مصروف شاہراہوں پر تو پھر بھی کسی حد تک ٹریفک سگنلز کی پابندی مجبورا کر لی جاتی ہے لیکن اگر کسی سگنل پر ٹریفک کم ہو اور اہلکار بھی موجود نہ ہو تو سرخ بتی پر رکنے والوں کو ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے وہ مریخ کی مخلوق ہوں اور اگر انہوں نے سیٹ بیلٹ بھی لگائی ہوئی ہو تو ایک تمسخر آمیز مسکراہٹ سے بھی نوازا جائے گا۔ سگنل پر نا رکنے والوں کے لیے آپ محسوس کریں گے کہ شاید بیچارا کہیں پہنچنے کے لیے بہت لیٹ ہو گیا تھا اور وقت کی پابندی اس کی نظر میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معلوم ہوگا کہ آگے جاکر کسی کی لڑائی کا تماشہ دیکھنے کے لیے بیس پچیس منٹ رک کر پوری کارروائی نوٹ کی جائے گی تفریح طبع کے لیے یہ بھی بہت ضروری ہے۔

ویسے تو یہ بات ہم سب ہی جانتے ہیں کہ کراچی میں پچھلی کئی دہائیوں سے ترقیاتی کام کی رفتار بہت سست بلکہ نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ لیکن کچھ شاہراہوں کو سگنل فری کردیا گیا تھا تاکہ ٹریفک جام کی کوفت سے بچا جا سکے۔ لیکن مجال ہے کہ آپ کی زندگی میں کوئی دن ایسا آجائے کہ شام کو کام سے واپسی پر ٹریفک جام نہ ملے۔ شاہراہ فیصل پر سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ شام کے اوقات میں رش کا کیا عالم ہوتا ہے۔ جبکہ یہ شاہراہ کافی چوڑی ہے لیکن اکثر مقامات پر ٹریفک جام کی بنیادی وجہ یہی نظر آرہی ہوتی ہے کہ لوگ اپنی مرضی کی لین میں اپنی مرضی کی رفتار سے سفر کرنے کے قائل ہیں۔ فاسٹ لین میں آپ کو موٹر سائیکل سوار حضرات بھی ملیں گے اور ایک چالیس کلومیٹر کی رفتار سے جاتی ہوئی کار بھی جس کا ڈرائیور آرام سے فون پر مصروف ہو گا۔ اگر آپ نے سمجھانے کی کوشش کی تو جواب ملے گا کہ پوری روڈ خالی ہے کہیں سے بھی چلے جاؤ۔ اسی طرح ون وے کی خلاف ورزی اور ہارن کا بیجا استعمال بھی عام نظر آتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کے مزاج کا اندازہ لگانا ہو تو ان کے ٹریفک کا جائزہ لیا جائے۔ اس جائزے کے لیے کراچی میں صدر کی شاہراہ ایک بہترین انتخاب ثابت ہوگا۔ سڑک کے دونوں اطراف موجود ٹھیلے اور خریداروں کا رش نظر آئے گا۔ اور پھر بےشمار بے ترتیب گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی پارکنگ کے درمیان بچ جانے والی جگہ پر ٹریفک اپنا راستہ بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہوگی۔ اسی ٹریفک کے درمیان کچھ خواتین انتہائی بے خبری کے عالم میں روڈ پار کرنے کے لیے ٹہلتی نظر آئیں گی۔ اور سگنل کی بتیاں معلوم ہوتا ہے کہ محض بچوں کو خوش کرنے کے لیے لگائی گئی ہیں۔ اس ٹریفک کے درمیان جگہ بنانے کی کوشش میں دو گاڑیاں آپس میں رگڑ کھا جائیں توعوام کے لیے ایک بہترین فری اسٹائل ریسلنگ شو کا اپنا ہی مزہ ہے۔ عوام نہ صرف اس ریسلنگ شو سے محظوظ ہوتے ہیں بلکہ جج اور جیوری کے فرائض بھی سرانجام دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس سارے ریسلنگ شو اور تماشائیوں کی وجہ سے مزید جام ہونے والا ٹریفک صرف ایسے افراد کے لیے سوہان روح ہوتا ہے جنہیں ایمرجنسی میں کہیں پہنچنا ہو۔ باقی سب لوگ پورا شو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

پاکستان میں ہر سال تقریبا دس ہزار سے زیادہ افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے نو ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اور زندہ بچ جانے والوں کے لیے یہ بے ہنگم ٹریفک مسلسل ذہنی اذیت ہے۔ اس ٹریفک میں ڈرائیو کرنے کی تھکن دن بھر ملازمت کی تھکن پر بھاری ہوتی ہے۔ ذہن مسلسل اس دباؤ کا شکار رہتا ہے کہ کسی اور کی لاپرواہی کا خمیازہ کہیں آپ کو نہ بھگتنا پڑے۔

اپنی غلطی کو پہچان کر درست کرنا باشعور قوم کی نشانی ہے۔ ساتھ ہی انسانی نفسیات کے مطابق قانون کا ڈنڈا سر پر ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں قوانین تو موجود ہیں لیکن عمل درآمد کروانے کے لیے سسٹم موجود نہیں۔ ایسے معاشرے جہاں قانون کی پاسداری کرنے والوں کو بیوقوف یا پاگل سمجھا جائے تو پھر ہنگامی بنیادوں پر قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے جو بدقسمتی سے ہمارے یہاں بالکل ہی ناپید ہے۔