1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرائسٹ چرچ: ایک اور مسجد بھی نشانے پر تھی

7 جولائی 2020

نیوزی لینڈ کی اسلامک وومین کونسل کے مطابق پولیس اور سکیورٹی اداروں کو پندرہ مارچ 2019ء کو ایک اور مسجد پر مبینہ حملے کے بارے میں متنبہ کیا گیا تھا۔ اس دن کرائسٹ چرچ میں ایک مسلح حملہ آور نے51 نمازیوں کو ہلاک کردیا تھا۔

https://p.dw.com/p/3eu6E
Neuseeland Christchurch | Blumen am Eingang der Masjid An-Nur Moschee zu Gedenken der Opfer März 2019
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/S. Vidanagama

اسلامک وومین گروپ نے تحقیقاتی انکوائری کو بتایا ہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کے روز پولیس اور سکیورٹی اداروں کو ایک اور مسجد پر مبینہ حملے کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔ اسلامک وومین کونسل کے مطابق انہوں نے پولیس کو بار بار سفید فام نسلی برتری کے پیروکاروں کی جانب سے دھمکیوں کے بارے میں خبردار کیا تھا۔

مزید پڑھیے: نیوزی لینڈ: اپنا اسلحہ حکومت کو فروخت کریں!

کونسل نے ایک سو تیس صفحات پر مشتمل اپنی جامع رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ برس پندرہ مارچ کے ہی دن اُن کو فیس بک پر جیسے ہی ہیملٹن شہر کی ایک مسجد کے سامنے قرآن نذر آتش کرنے کا ایک پیغام موصول ہوا تو انہوں نے فوراﹰ متعلقہ اداروں کو آگاہ کر دیا تھا۔ واضح رہے اس ہی دن یعنی پندرہ مارچ سن 2019 کو کرائسٹ چرچ ميں دو مختلف مساجد پر ہونے والے حملوں ميں اکاون افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

Christchurch: Brenton Tarrant - Angeklagter
مبینہ حملہ آور برینٹن ٹیرنٹتصویر: picture-alliance/AP/S. McEwin

اسلامک وومین کونسل نے انکوئری مشن کو رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ اگرچہ یہ دھمکی براہ راست کرائسٹ چرچ میں حملوں سے منسلک نہیں تھی لیکن تمام مساجد میں اضافی حفاظتی اقدامات لیے جاسکتے تھے۔ اس رپورٹ کو منگل کے روز عام کیا گیا ہے۔ کونسل کی رپورٹ کے مطابق، ’’پولیس کے پاس ملکی سطح پر مساجد کی سکیورٹی سخت کرنے کی جامع حکمت عملی جاری کرنے کے لیے کافی شواہد موجود تھے۔‘‘

نیوزی لینڈ کی مساجد پر دہشت گردانہ حملے

انتيس سالہ آسٹريلوی مبینہ حملہ آور برینٹن ٹیرنٹ کے خلاف عدالتی فیصلہ آئندہ ماہ چوبیس اگست کی سماعت کے دوران متوقع ہے۔  کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملہ کرنے والے ٹیرنٹ  کے پاس اسلحہ رکھنے کا لائسنس بھی موجود تھا اور اس کی سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کے تناظر میں شبہ ہے کہ وہ سفید فام نسل پرست ہے۔ برینٹن نے خونریزی کا یہ واقعہ فیس بک پر لائیو نشر کیا تھا۔ اس کو مسجد النور پر حملے کے چھتیس منٹ بعد حراست میں لیا گیا تھا۔

Neuseeland, Christchurch: Brenton Tarrant bekennt sich schuldig
تصویر: Getty Images/K. Schwoerer

رائل کمیشن کی انکوائری جولائی کے آخر تک متوقع 

نیوزی لینڈ کی اسلامک وومین کونسل کے دعوی کے جواب میں پولیس کا کہنا ہے کہ رائل کمیشن کی تحقیقات مکمل ہونے تک اس بارے میں کوئی بھی تبصرہ نہیں کیا جائے گا۔ تاہم، ہیملٹن کی مسجد پر حملے کے خطرے کے بارے میں پولیس نے بتایا ہے کہ دھمکی دینے والے شخص کی شناخت کی گئی تھی اور اسے باضابطہ طور پر متنبہ بھی کیا گیا تھا۔ کرائسٹ چرچ میں دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں رائل کمیشن کی انکوائری کی تفتیش جولائی کے آخر تک مکمل ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔

مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت میں اضافہ

کرائسٹ چرچ کے حملوں کے بعد سے اب تک مسلم برادری کو نفرت آمیز دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس سال کے آغاز میں ہی ایک دھمکی آمیز پوسٹ پوسٹ شائع کی گئی تھی۔ 

نیوزی لینڈ میں برطانیہ اور امریکا کے برعکس نفرت پر مبنی جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہی ہے لیکن کرائسٹ چرچ کے حملے کے نتیجے میں سکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھیے: ’پاکستانی ہیرو‘ نعیم رشید کے لیے قومی ایوارڈ 

مسلم خواتین کی کونسل کے اندازوں کے مطابق نیوزی لینڈ میں اسکارف پہننے والی شاید ہی کوئی ایسی خاتون ہو، جسے عوامی مقامات پر کسی قسم کی بدسلوکی کا نشانہ نہ کرنا پڑا ہو۔
ع آ / ع ا (روئٹرز)

کرائسٹ چرچ حملوں کی برسی کورونا وائرس کے سبب منسوخ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں