ڈیڈ لائن گزر بھی گئی: مولانا فضل الرحمٰن کا اگلے قدم پر غور
4 نومبر 2019پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے پیر چار نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق جمیعت علمائے اسلام کے حکومت مخالف 'آزادی مارچ‘ کی قیادت کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو اپنی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن کے بغیر کسی پیش رفت کے ہی گزر جانے کے بعد اب اپنے اگلے اقدام پر غور کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن، جو اپنے ہزارہا حامیوں اور اپنی جماعت کے کارکنوں کے ساتھ کئی روزہ مارچ کے بعد ملکی دارالحکومت تک پہنچے تھے، آج پیر کے روز ملکی اپوزیشن کے رہنماؤں سے اس سلسلے میں ملاقاتیں کر رہے ہیں کہ ان کا پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ وفاقی حکومت کے خلاف اگلا قدم کون سا ہونا چاہیے۔
جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے اس مذہبی سیاسی رہنما کے حامی اور اس جماعت کے مذہبی مدرسوں کے جو ہزارہا طلبہ اسلام آباد پہنچے تھے، انہوں نے گزشتہ ہفتے جنوبی بندرگاہی شہر کراچی اور ملک کے دیگر شہروں سے مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کرنا شروع کیا تھا۔
اس مارچ کے شرکاء گزشتہ تین روز سے اسلام آباد کے مضافات میں اپنے کیمپ لگائے ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی ہم خیال اپوزیشن جماعتوں کا عمران خان کی حکومت پر الزام ہے کہ وہ اچھی گورننس کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اس مارچ اور پھر دھرنے کے شرکاء کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ حکومت ملک میں ہر شعبے میں سخت اسلامی قوانین نافذ کرے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اب تک یہ مطالبات تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی نے یہ بھی لکھا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کی طرف سے جو دینی مدرسے چلائے جاتے ہیں، ان سے نکلنے والے بہت سے طلبہ بعد میں نہ صرف افغانستان کی عسکریت پسند طالبان تحریک میں شامل ہو گئے تھے بلکہ انہی میں سے بہت سے پاکستان میں مقامی طالبان کے اس شدت پسند اور حکومت مخالف گروپ کا حصہ بھی بن گئے تھے، جو تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کہلاتا ہے اور پاکستان میں ایک ممنوعہ تنظیم ہے۔
م م / ع ح (اے پی)