1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی، عالمی محققین کی فہرست میں شامل

21 دسمبر 2021

بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی کمپیوٹر سائنٹسٹ ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی کو 2021 کے لیے زیادہ پڑھے جانے والے سائنسدانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر رحمانی نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات کی ہے۔

https://p.dw.com/p/44dpx
Pakistan | Dr. Mubashir Rehmani
تصویر: privat

ہر برس کی طرح 2021 میں بھی عالمی  سائنسی افق پر بہت سی قابل ذکر تحقیقات سامنے آئیں۔ اگرچہ  کورونا وائرس کی وبا  پر قابو پانے اور منفی اثرات کے سد باب کے لیے زیادہ تر  ویکسین اور ہیلتھ کیئر سے متعلق تحقیقات پر زور رہا۔  اس کے باوجود سائنس کی دوسری فیلڈز  سے تحقیقات بھی اپنی اہمیت منوانے میں کامیاب رہیں۔ ان مایہ ناز سائنسدانوں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے  ڈاکٹر مبشر  حسین رحمانی  بھی شامل ہیں جن کی تحقیق کا میدان ٹیلی کمیونیکیشن ہے۔ وہ فی الوقت مَنسٹر ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی آئرلینڈ سے  وابستہ ہیں۔ 

انسٹی ٹیوٹ آف  سائنٹیفک  انفارمیشن کلاری ویٹ کی فہرست کیا ہے؟

دنیا بھر میں یہ چلن عام ہے کسی بھی نئی  تحقیق کو تحریر کر کے ان مقالاجات کو نامور سائنسی جنرلز جیسے نیچر کمیونیکیشن، سائنس، ایڈوانسڈ میٹیریل اور انگلینڈ جنرل آف میڈیسن وغیرہ میں شائع کیا جاتا ہے جنہیں اشاعت سے پہلے انتہائی باریک بینی  کے ساتھ جانچا اور پرکھا جاتا ہے ۔

ان ریسرچ پیپرز کو سال بھر میں دنیا بھر کے سائنسی اور غیر سائنسی حلقے  بڑی تعدا د میں سرچ کرتے اور پڑھتے ہیں۔ یہ تحقیقات اپنی مخصوص سائنس فیلڈ میں مستقبل کی  ریسرچ پر گہرے اثرات  بھی مرتب کرتی ہیں۔ اسی بنیاد پر انسٹی ٹیوٹ آف سائنٹیفک انفارمیشن کلاریویٹ ہر برس  سب سے زیادہ پڑھی جانے والی یا گہرے اثرات مرتب کرنے والے سائنسدانوں کی تحقیقات کی ایک فہرست جاری کرتا ہے ۔ 2021 کے لیے جاری کی جانی والی فہرست میں 24 نوبل  انعام یافتہ  سائنسدانوں کے ساتھ پاکستان کے مایہ ناز کمپیوٹر سائنسدان ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر مبشر رحمانی کا تعلق  سندھ سے ہے انہوں  نے کمپیوٹر سسٹم  میں بی ایس مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو سے کیا۔ 2011 میں پیری اینڈ میری کیوری یونیورسٹی پیرس سے اسی فیلڈ میں پی ایچ ڈی  مکمل کی۔ وہ کمپیوٹر سائنس، ٹیلی  کمیونیکیشن،  بلاک چین،  وائر لیس نیٹ ورکس پر تحقیق کرتے ہیں۔

اس موقع پر ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر مبشر  نے بتایا کہ  انہیں اس سے پہلے 2020 میں بھی  کلاری ویٹ کی جاری کردہ فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔  وہ اب تک 132 سے زائد ریسرچ پیپرز تحریر کر چکے ہیں جن میں 11 ہائیلی سائیٹڈ ( سب سے زیادہ پڑھے جانے والے)  پیپرز میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر مبشر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ہائیلی سائیٹڈ ریسرچرز کی یہ لسٹ عالمی سطح پر انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ کیونکہ جب عالمی سطح پر یونیورسٹیوں کی رینکنگ کی جاتی ہے  تو دیکھا جاتا ہے یونیورسٹی کے کتنے سائنسدانوں کے پیپرز مایہ ناز سائنسی جنرلز میں شائع ہوئے۔ ان میں سے کتنے نوبل انعام یا دیگر اعلیٰ سائنسی اعزازات کے حق دار پائے یا نامزدگی حاصل کی۔

Pakistan | Dr. Mubashir Rehmani
ڈاکٹر مبشر بہت زیادہ پڑھے جانے والے سائنسدانوں میں سے ایک ہیںتصویر: privat

پاکستان میں عالمی سطح کی تحقیق نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟

ڈاکٹر مبشر رحمانی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم پاکستانی یونیورسٹیوں اور جو تحقیقی ادارے ہیں  انہیں ورلڈ کلاس بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں ان سٹینڈرڈز کو اپنانا ہوگا جو عالمی  سطح پر رائج ہیں۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیق کا رجحان انتہائی  کم ہے، جس کی ایک وجہ یقینا تعلیمی شعبے کا کم بجٹ  ہے۔ ڈاکٹر رحمانی کے مطابق پاکستان میں سائنسی تحقیق کو پروان چڑھانے کا کام  دو تین برس کا نہیں بلکہ اس کے لیے  عشرے درکار ہوں گے۔ اسکول کی پرائمری سطح سے پریکٹیکل ورک کو بڑھانا اور معاشرے میں سائنسی طرز فکر کو   فروغ دینا ہوگا۔

ڈاکٹر رحمانی  کہتے ہیں، ''پاکستانی تعلیمی نظام میں سوال اور غور کرنا ممنوع  ہے اور بس رٹا رائج ہے۔ ہمیں  لوگوں کو سکھانا ہوگا کہ سائنسی سوچ کے ساتھ کس طرح سوال کیے جاتے اور پھر پریکٹیکل ورک سے کس طرح ان کے جوابات تلاش کیے جاتے ہیں۔  اس طرح جب آہستہ آہستہ سائنس ہمارے معاشرے میں سرایت کرے گی  تو ہماری یونیورسٹیوں  اور تحقیقی اداروں سے بھی ورلڈ کلاس ریسرچ سامنے آنے  لگے  گی۔ جسے پھر  مایہ ناز سائنسی جریدوں میں رپورٹ بھی کیا جائے گا۔  سارا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں سائنسی تحقیق کو عالمی سطح سے  ہم آہنگ کرنے کے لیے کوئی منظم  پالیسی یا اسٹرٹیجی نہیں ہے۔‘‘

پاکستان میں سائنس اور اسلام کے درمیان جاری جنگ کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے؟

پاکستان میں  رائے عامہ  دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ مذہبی طرز فکر رکھنے والے افراد سائنس سے بیزار ہیں جب کہ سائنسی  سوچ رکھنے والے افراد مذہب سے دور ہو تے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر مبشر رحمانی  نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کی جانب ان کا رجحان بی ایس انجینئرنگ  کے دوران بڑھا اور وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر تبلیغ پر نکل جانا چاہتے تھے ۔ وہ  راہ نمائی کے لیے حیدر آباد میں ایک مفتی صاحب کے پاس گئے جنہوں نے انہیں سمجھایا کہ وہ جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں اسے  مکمل کریں۔

 ڈاکٹر مبشر کے مطابق، ''اسلام سائنسی تعلیمات حاصل کر نے  سے ہرگز نہیں روکتا نہ ہی سائنسی طرز فکر مذہب سے نالاں کرتا ہے بلکہ اسلام اور قرآن تو از خود تحقیق و جستجو کی طرف مائل کرتے ہیں۔  لیکن اس کے لیے سائنس اور اسلام  دونوں  کی حدود کا خیال کرتے ہوئے  توازن رکھنے کی ضرورت ہے۔  ڈاکٹر مبشر کہتے ہیں   کہ بھلے آپ سائنسدان ہوں، انجینئر ہوں  یا بینکار ہوں، آپ جس فیلڈ سے بھی وابستہ ہوں وہاں ایمان داری کے ساتھ کام کر کے مہارت حاصل کریں تو  یہ بھی ایک طرح کی دینی خدمت ہوتی ہے۔‘‘