1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی کا مارچ مرکز نگاہ

عبدالستار، اسلام آباد
23 مئی 2022

پی ٹی آئی کے مارچ کے اعلان کے بعد پورے ملک میں اس پر بحث و تمحیص ہو رہی ہے۔ دوسری طرف حکومت اس سے نمٹنے کے لیے تیاریاں کر رہی ہے اور مختلف آپشنز پر غور بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

https://p.dw.com/p/4BkOB
Pakistan Protest nach Misstrauensvotum gegen Imran Khan | Peshawar
تصویر: Abdul Majeed/Getty Images/AFP

واضح رہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے ابھی تک پاکستان تحریک انصاف کو اس مارچ کی اجازت نہیں دی ہے جو ممکنہ طور پر کشمیر ہائی وے پر منعقد ہوگا۔

اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دوران ریڈ زون کو بالکل سیل کر دیا جائے گا اور حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ کسی بھی طرح کا امن و امان کا مسئلہ نہ ہو۔ اس حوالے سے آج اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کا ایک اہم سکیورٹی اجلاس بھی ہوا جب کہ حکومت نے اپنے اتحادیوں سے صلاح مشورے کئے۔  وزیراعظم شہباز شریف نے اس حوالے سے لاہور میں بھی ایک اجلاس منعقد کیا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری گرفتار

اجازت ملے یا نہ ملے مارچ ضرور ہوگا

پی ٹی آئی کے رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ حکومت اجازت ہمیں نہیں دے گی لیکن پھر بھی ہم اس کے لئے نکلیں گے کیونکہ یہ ہمارا قانونی اور آئینی حق ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "حکومت نے اس سے پہلے بھی ہمیں مختلف جلسوں کی اجازت نہیں دی۔ لاہور میں ہم ایوان اقبال میں پروگرام کر رہے تھے، تو ہمیں اجازت نہیں دی گئی۔ سیالکوٹ میں تو انتہائی گھٹیا حرکت کی گئی اور وہاں پر مذہبی کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو حکومت اجازت دے یا نہ دے مارچ  نکلے گا۔‘‘

Pakistan Protest nach Misstrauensvotum gegen Imran Khan | Karachi
پی ٹی آئی کے رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ حکومت اجازت ہمیں نہیں دے گی لیکن پھر بھی ہم اس کے لئے نکلیں گےتصویر: Rizwan Tabassum/Getty Images/AFP

مارچ دھرنے میں بدل سکتا ہے

پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ پی ٹی آئی اس پروگرام کو صرف مارچ تک محدود نہیں کرے گی بلکہ یہ مارچ دھرنے میں تبدیل ہو سکتا ہے جس سے عوام کے لئے بہت ساری مشکلات بڑھیں گے۔ تاہم پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کتنی جلدی ہمارے مطالبات کو مانتی ہے۔ مسرت چیمہ کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات نہیں مانے تو مارچ دھرنے میں بدل جائے گا، " ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر الیکشن کی تاریخ دے اور الیکشن کمیشن کے حوالے سے جو ہمارے مطالبات ہیں ان کو تسلیم کرے۔ اگر ایسا نہ ہوا، تو پھر مطالبات کی منظوری تک دھرنا ہوگا۔

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ: عدم استحکام کے بھڑتے خدشات

افراد کی تعداد

ناقدین کے خیال میں پی ٹی آئی بیس لاکھ افراد کی مطلوبہ تعداد کو کبھی بھی پورا نہیں کر سکے گی جس کا عمران خان نے اپنے جلسوں میں دعویٰ کیا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کا اصرار ہے کہ سندھ، پنجاب، بلوچستان خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے کونے کونے سے لوگ اس مارچ میں شرکت کریں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد آئیگی۔ مسرت چیمہ کا دعوی ہے" ممکنہ طور پر پنجاب سے دس سے پندرہ لاکھ لوگ آ سکتے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا اور ملک کے دوسرے علاقوں سے بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس مارچ میں شرکت کرے گی۔‘‘

ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے

حکومت کی طرف سے پاکستانی میڈیا میں اس طرح کی خبریں آرہی ہیں کہ حکومت پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی نگرانی کر رہی ہے اور کچھ رہنماوں کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔  مسرت چیمہ کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے رہنماؤں کی گرفتاری ہوئی تو حکومت کو ہر طرح کے ردعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے، "ہمارا مارچ ایک انقلابی عمل ہے اور انقلابی عمل میں تو لوگ اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرتے، تو گرفتاریوں اور جیلوں کی کیا حیثیت ہے۔‘‘

Pakistanischer Premierminister Imran Khan
فائل فوٹو: نو سال قبل نارووال میں عمران خان کے جلسے کا ایک منظرتصویر: Daniel Berehulak/Getty Images

پاکستان میں تمام مارچز کامیاب ہوئے ہیں

کچھ حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ شاید پی ٹی آئی مارچ کر کے چلی جائے گی اور وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے گی۔ لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہاں مارچ اور لانگ مارچ ہمیشہ کامیاب ہی ہوئے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کے خلاف لانگ مارچ کیا تھا اور وہ کامیابی سے ہمکنار ہوا جبکہ نواز شریف نے بے نظیر کے خلاف تحریک نجات شروع کی تھی  اور اس کو بھی کامیابی ہوئی، بالکل اسی طرح نواز شریف نے پچھلی پی پی پی کی حکومت کے دوران افتخار چودھری کی بحالی کے لیے مارچ نکالا تھا اور ابھی مارچ منزل مقصود پر بھی نہیں پہنچا تھا کہ مطالبہ منظور کر لیا گیا تھا‘‘

پاکستان: تشہیری مہم اور سرکاری اشتہارات تنقید کی زد میں

حبیب اکرم کے مطابق جس طرح عمران خان نے بڑے بڑے جلسے کر کے حکومت کو اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ دکھایا ہے اس سے اس بات کا امکان ہے کہ حکومت مطالبات کو تسلیم کر لے اور انتخابات کا اعلان کردیں۔‘‘

اسلام آباد کی قریبی علاقے اور مارچ

حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ اس مارچ میں اسلام آباد کے قریبی علاقے جیسے پشاور، صوابی، مانسہرہ، ایبٹ آباد، راولپنڈی ڈویژن اور آزاد کشمیر کا بڑا اہم کردار ہوگا کیوں کہ یہاں کہ لوگوں کے لئے جنوبی پنجاب، سندھ اور دوسرے علاقوں کی نسبت سفر اتنا لمبا نہیں ہوگا اور وہ آسانی سے واپس اپنے گھر جا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق عمران خان خود پشاور سے مارچ لائیں گے اس لئے خیبر پختونخوا سے اس مارچ میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوں گے لیکن پنجاب میں ہونے والے جلسے اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ پنجاب سے بھی ایک بڑی تعداد اس مارچ میں شرکت کریں۔

Pakistan Protest nach Misstrauensvotum gegen Imran Khan | Quetta
س مارچ میں اسلام آباد کے قریبی علاقے جیسے پشاور، صوابی، راولپنڈی ڈویژن اور آزاد کشمیر کا بڑا اہم کردار ہوگاتصویر: Banaras Khan/Getty Images/AFP

سخت ایکشن لیا جائے

حکومت جہاں اس بات پر تذبذب کا شکار ہے کہ آیا پی ٹی آئی کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے وہیں حکومت کی اہم اتحادی جے یو آئی ایف کا خیال ہے کہ حکومت کو پی ٹی آئی کے مارچ سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔ پارٹی کے رہنما محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ یہ مارچ آئی ایم ایف سے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے کیا جارہا ہے، انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے عمران خان نے معیشت کو تباہ کیا اور اب اگر حکومت اس کو آئی ایم ایف سے بات چیت کر کے بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تو یہ اس کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ حکومت کو اس کی بلیک میلنگ میں نہیں آنا چاہیے۔‘‘