1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تحفظ خوراک

"پہلے برآمد پر پیسہ بنایا اور اب درآمد پر بنائیں گے؟"

20 جنوری 2020

پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے پہلے لاکھوں ٹن گندم برآمد کرنے اور اب درآمد کرنے پر شدید نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ کیا گندم درآمد کرنے سے آٹے کا بحران ختم ہو جائے گا اور اس کے کسانوں پر کیا اثرات پڑیں گے؟

https://p.dw.com/p/3WU99
Indien Chapati
تصویر: picture-alliance/Photocuisine

پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا ہے کہ انہوں نے گندم کے بحران کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا تھا لیکن ان کی بات پر توجہ نہیں دی گئی۔  انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ چار پانچ مہینے سے یہ کوشش کر رہے تھے کہ وزیر اعظم اس مسئلے پر توجہ دیں۔

اس سوال پر کہ گندم کا بحران کیوں آیا؟ ان کا موقف تھا کہ یہ بد انتظامی ہے۔ وفاقی حکومت کو پچھلے سال گندم  بر آمد نہیں کرنا چاہییے تھی۔
ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ گندم کا مسئلہ آسانی سے حل نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزید خبردار کیا کہ "ابھی  چینی پانچ چھ روپے  بڑھ گئی ہے، پندرہ دن میں مزید بڑھ جائے گی۔ پھر اسی روپے میں بھی آپ کو چینی نہیں ملے گی۔" 
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں صرف وفاقی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کو بھی سوچنا ہوگا۔ 
سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی کے مطابق ملک میں گندم کا بحران وفاقی حکومت کی بڑی ناکامی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایک ایسا ملک جہاں گندم کی قلت نہیں ہوتی وہاں گندم باہر سے کیوں منگوانا پڑ رہی ہے؟

Indien Verbrennung von Ernterückständen
تصویر: DW/Catherine Davison

جب ڈی ڈبلیو نے پیپلز پارٹی کے رہنما سے پوچھا کہ سندھ میں آٹے کی کمی کا مسئلہ کیوں ہوا، تو انہوں نے کہا کہ سندھ میں گیارہ لاکھ ٹن گندم کی مانگ ہوتی ہے جبکہ سات لاکھ ٹن گندم اسٹا ک میں تھی۔ "ہم نے ایک لاکھ ٹن ڈسٹرکٹ وئیر ہاوس سے اٹھا لی ہے۔ جب ہم نے پنجاب سے گندم اٹھانا چاہی تو وہاں  ہڑتال کے باعث نہ اٹھا سکے۔" انہوں نے کہا کہ سندھ پر آٹا کنٹرول پرائس پر فروخت کیا جا رہا ہے اور حکومت تین دن کے اندر اس بحران سے نمٹ لے گی۔

Hafeez Sheikh
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal


حکومتی موقف    
پیر کو وفاقی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے  اکتیس مارچ تک تین لاکھ ٹن گندم  درآمد کرنے کی منظوری دے دی۔ توقع  ہے کہ یوکرائن سے گندم کی پہلی کھیپ پندرہ فروری کو پاکستان پہنچے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف چھ مہینے پہلے کابینہ کی اسی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں چھ لاکھ ٹن گندم دوسرے مما لک کو برآمد کرنے کی منظوری دی تھی۔
اس سے قبل، وفاق میں پی ٹی آئی کے وزیر خوراک  خسرو بختیار کہہ چکے ہیں کہ گذشتہ برس خراب موسم کی وجہ سے گندم کی پیداوار بارہ لاکھ ٹن کم  ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ بیس جنوری سے آٹے کے بحران میں کمی آئے گی اور یہ مسئلہ تین سے چار دن میں ختم ہو جائے گا۔

Pakistan Kunst auf Lastkraftwagen
تصویر: Reuters/C. Firouz

میڈیا کی تنقید

حالیہ دنوں میں پاکستانی میڈیا میں اس مسئلہ کو اٹھانے والوں میں صحافی رؤف کلاسرہ پیش پیش رہے ہیں۔ 
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "حکومت نے پہلے گندم کی بڑی مقدار افغانستان کو بیچی دی۔ اب یہ چار لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ پہلے خود ہی برآمد کی اور اب در آمد کریں گے۔"
انہوں نے سوال کیا کہ "جب ایک ایک ڈالر قرض لینے کے لیے دنیا بھر میں جا رہے ہیں تو ایسے وقت میں گندم درآمد کرنا کہاں کی دانشمندی تھی؟ کیا ہم یہ سمجھیں کہ لوگوں نے پہلے برآمد پر پیسہ بنایا اور اب درآمد پر بنائیں گے؟ 
رؤف کلاسرہ کا کہنا ہے کہ گندم در آمد کرنے کے فیصلے سے پاکستان کا کسان تباہ ہو جائے گا۔ 
انہوں نے کہا کہ "مارچ کے مہینے میں سندھ میں اور اپریل تک پنجاب میں گندم کی فصل اتر جائے گی، تو  پھر یہاں کے کسان کا کیا ہو گا؟ 

Steigende Preise für Weizen, Pakistan
تصویر: AP