1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجابی میڈیا نے بلوچوں پر حملے کو نظر انداز کیا، حامد میر

بینش جاوید
13 جولائی 2018

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کا پاکستانی میڈیا پر اثر ورسوخ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے پاکستانی میڈیا نے نواز شریف کی ریلی اور ان سے متعلق خبروں کی بھر پور کوریج نہیں کی۔

https://p.dw.com/p/31Qlb
Abu Dhabi Maryam Nawaz Sharif und Mian Nawaz Sharif
تصویر: Facebook/pml.n.official

ملک کے معروف تجزیہ کار اور صحافی طعلت حسین کا کہنا ہے، ’’ پاکستان کا میڈیا مکمل طور پر سنسرشپ کی زد میں ہے۔ جو بھی واقعہ ہو جس کا فائدہ کسی نہ کسی طرح سے ن لیگ کو ہو اسے میڈیا نہیں دکھا رہا۔ اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ میڈیا  کے مالکان پر بہت زیادہ ہے۔  وہ کیبل آپریٹرز کے ذریعے چینلز کو بند کر دیتے ہیں اور باقی انصاف دینے والے اداروں کی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔  نواز شریف کے خلاف جو  تاثر قائم ہو چکا ہے وہ کہیں پاکستان مسلم لیگ نون کی ریلی سے ٹوٹ نہ جائے، اس ڈر سے  میڈیا نے ان کی ریلیوں کو نہیں دکھایا۔‘‘

معروف صحافی اور اینکر طلعت حسین کا  یہ بھی کہنا تھا کہ لاہور کے جس علاقے میں وہ موجود تھے وہاں لاکھوں کا مجمع تو نہیں تھا لیکن پچاس ہزار تک لوگ  موجود تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ لاہور کی سٹرکوں سے  گھوم کر آیا ہوں جہاں ہزاروں کی تعداد میں مسلم لیگ نون کے پر جوش کارکنان موجود ہیں اور یہ مناطر میڈیا نہیں دکھا رہا کیوں کہ یہ مناظر دکھانے سے الیکشن کے ماحول پر اس کا اثر پڑتا ہے اور جو الیکشن کے خاص نتائج چاہتے ہیں وہ سیاسی ماحول کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔‘‘

معروف صحافی ناصر عباس نے لکھا،’’ کسی چینل نے لاہور میں مسلم لیگ نون کی ریلی میں شریک افراد کی درست تعداد نہیں بتائی۔ یہ بہت مایوس کن ہے لیکن میڈیا پر دباؤ بھی بہت زیادہ ہے۔‘‘

صحافی عمر چیمہ نے لکھا،’’میڈیا جتنی زیادہ بہادری کی توقع میاں نواز شریف سے کر رہا ہے اس سے کہیں زیادہ بزدلی کا مظاہرہ خود کر رہا ہے۔‘‘

پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی نے بھی ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز ان کا نواز شریف کا انٹرویو ٹی وی چینل پر نہیں دکھایا گیا۔

پاکستان میں انتخابی عمل پر گہری نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے نواز شریف اور مریم نواز ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’نواز شریف اور مریم نواز کا لاہور میں آنا اور پھر گرفتار ہو جانا  صرف آنے والے انتخابات کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے دور رس سیاست پر بھی  بہت سے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے نواز شریف اور ان کی بیٹی کی سیاست میں پوزیشن بہت زیادہ مستحکم ہو گی اور ان کی پارٹی کے لیے انتخابات میں اپنے بیانیہ کو لے اعتماد کے ساتھ شامل ہونا آسان ہو جائے گا۔‘‘

محبوب کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن ان انتخابات میں  کامیاب ہو گی یا نہیں ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ بہت سے اور  حقائق ہیں جو انتخابات پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور انتخابات کا عمل بہت زیادہ شفاف نہیں لگ رہا۔ احمد بلال محبوب نے کہا،’’ نواز شریف کی  جد وجہد کی بنیاد ایک بیانیہ پر مبنی ہے وہ کہتے ہیں کہ ووٹ کا احترام کرنا چاہیے اور منتخب قیادتوں کے اوپر غیر منتخب اداروں کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ خود آئے ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی طرح کے سلوک کے لیے تیار ہیں ۔‘‘

 صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ آج کی خبر نواز شریف کی آمد کے بجائے مستونگ کا افسوس ناک واقعہ تھا جہاں ایک خودکش حملے میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ ‘پنجابی میڈیا‘ نے بلوچوں کی ہلاکتوں کو اس لیے نظر انداز کیا کیوں کہ انہیں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اشتہارات سے بہت زیادہ مالی فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا کو آج کے دن متوازن کوریج کرنی چاہیے تھی۔