1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب میں گردوں کی غیرقانونی خرید و فروخت عام کیوں؟

عبدالستار، اسلام آباد
21 فروری 2020

عمر شریف کی صاحبزادی حرا کا چند دن پہلے ہی انتقال ہوا ہے، جس کے بعد میڈیا میں یہ خبریں گرم ہیں کہ انہوں نے گردے کی ٹرانسپلانٹیشن کرائی تھی اور ڈاکٹر نے انہیں انفیکشن زدہ گردہ لگا دیا تھا، جس سے ان کی موت واقع ہوگئی۔

https://p.dw.com/p/3Y4n4
Pakistan Punjab | Nierenverkauf wegen Armut oder Schulden: Gh. Fareed
تصویر: DW/A. Sattar

پنجاب میں اعضاء کی پیوند کاری کے ادارے ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی کے ایک افسر محمد ندیم طارق کا کہنا ہےکہ ایسے عناصر کے خلاف کریک ڈاون ہو رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "عمر شریف کے صاحبزادے جواد عمر نے ڈاکٹر کے خلاف شکایت دی ہے، جس میں انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈاکٹر نے ان کی بہن کے ٹرانسپلانٹ کے لیے چونتیس لاکھ روپے لیے تھے۔ "

محمد ندیم طارق نے کہا کہ متعلقہ ڈاکٹر مفرور ہے، اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جارہی ہے اور ضرورت ہوئی تو اس کا نام ای سی ایل میں بھی ڈالا جائے گا۔

Pakistan Punjab | Nierenverkauf wegen Armut oder Schulden: Mrs Inayat
تصویر: DW/A. Sattar

ان کا کہنا تھا کہ ملزم دو ہزار سترہ میں اپنی رٹائرمنٹ تک لاہور جنرل اسپتال میں پلاسٹک سرجن کے طور پر کام کرتا رہا۔ "دوہزار سترہ میں بھی ان کے خلاف اسی طرح کی شکایت آئی تھی، جس پر وہ پکڑاگیا اور اٹھارہ ماہ جیل میں گزارے۔ پھر اگست دوہزار انیس میں لاہور میں گردے کی غیر قانونی ٹرانسپلانٹیشن کے حوالے سے چھاپہ مارا گیا۔ اس میں بھی اس کا نام آیا۔ اس کے بعد اس سال فیصل آباد کے ایک رہائشی نے اس کے خلاف اسی نوعیت کی ایف آئی درج کرائی۔ ہم نے سات فروری کو ڈاکٹر کو فیصل آباد پولیس کے حوالے کیا لیکن وہ کچھ ہی دن میں شخصی ضمانت پر واپس آگیا۔ اب اس کی گرفتاری کے حوالے سے اجلاس ہورہے ہیں۔"

حکومت کا وہ اس گھناؤنے کام کو روکنےکے لیے کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔ لیکن جن افراد نے اپنے گردے غربت کی وجہ سے بیچے ہیں، ان کا دعوی ہے کہ اس نیٹ ورک کو توڑنا نا ممکن ہے کیونکہ اس میں پیسے والے اور بہت بااثر لوگ ملوث ہیں۔

پتوکی سے تعلق رکھنے والے دو بچوں کے والد پینتیس سالہ بھٹہ مزدور محمد رمضان نے کچھ برس پہلے اپنا گردہ بیچا۔ ان کا کہنا ہے کہ اانہوں نے لاہور میں قائم ایک اسپتال میں اپنا گردہ دیا تھا۔ "وہاں وقار نامی ایک ڈاکٹر تھا، جس نے میرا آپریشن کیا تھا۔ جس بندے کو میرا گردہ لگایا گیا وہ ویسٹ انڈیز کا تھا۔ وہ میرے برابر والے بیڈ پر لیٹا تھا لیکن ڈاکٹرز اور وہاں پر موجود اسٹاف نے مجھے اس سے بات کرنے نہیں دی۔ آپریشن سے پہلے میرے کئی ٹیسٹ ہوئے اور بہت سے کاغذات پر انگوٹھا لگوایا گیا۔ دس برس پہلے اس ڈاکٹر کے پاس صرف ایک موٹر سائیکل تھی، آج وہ لینڈ کروزر میں گھومتا ہے اور اس کے اب شہر میں دو تین ہسپتال ہیں۔"

Pakistan Punjab | Nierenverkauf wegen Armut oder Schulden: M. Inayat
تصویر: DW/A. Sattar

رمضان کا مزید کہنا ہے کہ، "میں نے اپنا گردہ دو لاکھ روپے میں بیچا تھا لیکن ملے صرف ایک لاکھ بیس ہزار۔ اور آپریشن کے بعد جو طبی پیچیدگیاں ہوئی ہیں، میں آج تک بھگت رہا ہوں۔" ان کا کہنا ہے کہ غربت کی وجہ سے بہت لوگ اپنے اعضا بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

 انہوں نے بتایا کہ "بیس پیچس افراد کو تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، جنہوں نے گردے دیے۔ میرے اپنے خاندان سے میرے بڑے بھائی، بہنوئی، بھابی اور بھتیجے نے اپنے گردے بیچے ہیں۔ اس کے علاوہ میرے بہنوئی کے کئی رشتے دار ہیں، جنہوں نے گردے فروخت کیے ہیں۔"

کیا یہ کاروبار اب بھی چل رہا ہے؟

رمضان نے بتایا، "میں ابھی آٹھ دن پہلے جناح اسپتال لاہور گیا جہاں ایک مریض نے گپ شپ کے دوران بتایا کہ وہ گردے دینےکے لیے آیا ہے۔ یہ کاروبار صرف پرائیوٹ اسپتال میں ہی نہیں ہورہا بلکہ سرکاری اسپتالوں میں بھی چوری چھپے ہوتا ہے۔ کئی ڈاکٹرز کچھ ٹیسٹ سرکاری اسپتال میں کرتے ہیں اورپھر بقیہ کام پرائیوٹ اسپتال میں کرتے ہیں۔"

منڈی بہاوالدین سے تعلق رکھنے والے اکیاون سالہ محمد عنایت آٹھ بچوں کے باپ ہیں اور راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ حالیہ برسوں میں وہ اپنا، اپنی بیوی اور بیٹے کا گردے بیچ چکے ہیں۔

عنایت کا کہنا ہے کہ پنجاب اس کاروبار کا مرکز ہے۔ "پورے پاکستان میں پچاس لاکھ کے قریب بھٹہ مزدور ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد پنجاب میں ہیں۔ یہ غربت کی وجہ سے جانوروں جیسی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومت چاہے کتنے ہی قوانین بنالے، اس کاروبار کو روکا نہیں جا سکتا کیونکہ اس میں بہت طاقتور لوگ ملوث ہیں۔ میرے معاملے کا سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا تھا۔ میں نے متعلقہ ڈاکٹر کے خلاف پرچا بھی کرایا تھا لیکن وہ آج بھی مزے سے گھوم رہا ہے۔ جب تک غربت ہے، یہ کاروبار ختم نہیں ہو گا۔"