1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمپاکستان

پنجاب: بچوں سے جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کیسے روکے جائیں؟

30 جولائی 2023

پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب میں حالیہ کچھ عرصے سے کم عمر بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ انکشاف پنجاب کے محکمہ داخلہ کے ادارے صوبائی انٹیلیجنس سینٹر کی ایک حالیہ رپورٹ میں ہوا۔

https://p.dw.com/p/4UUR9
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ایک گاؤں حسین خان والا میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والا ایک سولہ سالہ لڑکا
رواں برس کے پہلے ساڑھے پانچ ماہ کے دوران پنجاب میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں کی تعداد کے دو گنا سے بھی زیادہ تھیتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

اس رپورٹ کے مطابق رواں برس کے پہلے ساڑھے پانچ ماہ کے دوران بچوں سے جنسی تشدد کے 1390 واقعات سامنے آئے، جن کے متاثرین میں سے 959 یا 69 فیصد لڑکے تھے اور 431 یا 31 فیصد متاثرین لڑکیاں تھیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسے واقعات کی وجہ سے عدالتوں میں اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے والے ملزموں میں سے 55 فیصد متاثرین کے پڑوسی تھے، 32 فیصد اجنبی اور 13 فیصد ان متاثرہ بچوں کے رشتہ دار۔

دوسری طرف ایک غیر سرکاری تنظیم سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں رواں برس یکم جنوری سے 30 اپریل تک کے عرصے میں بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے 455 واقعات رپورٹ ہوئے۔

بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے

پنجاب میں صوبائی انٹیلیجنس سینٹر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، ”یہ بات بھی تشویش ناک ہے کہ متعدد واقعات رپورٹ ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں خوف اور ثقافتی سطح پر ممنوعہ سمجھنے جانے والے موضوعات اور معاملات پولیس کو ایسے جرائم کی اطلاع دیے جانے کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ والدین کی اپنے متاثرہ بچوں کو بعد از جرم طبی اور قانونی مراحل سے بچانے کی خواہش بھی ایسے واقعات کے رپورٹ نہ کیے جانے کی بڑی وجہ ہے۔"

پاکستان میں ایک گلی میں کرکٹ کھیلتے بچے
والدین کو دھیان رکھنا چاہیے کہ ان کے بچے اپنی سے بڑی عمر کے کن دوستوں کے ساتھ کہاں کھیلتے ہیںتصویر: Danish Baber

’زینب قتل کیس: ایک سماجی مطالعہ‘ کے نام سے کتاب لکھنے والے مصنف اور صحافی احمد اعجاز کہتے ہیں، ''ایسے واقعات رپورٹ نہ ہونے کی بھی تین سطحیں ہیں۔" ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”پہلی سطح وہ ہے جہاں بچے خوف اور والدین سے فاصلے کی بنا پر انہیں کچھ بتا ہی نہیں سکتے۔ دوسری سطح پر والدین بدنامی اور سماجی دباؤ کی تحت معاملے کو دبا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بچوں کے اسکول تبدیل کرا دیتے ہیں یا مثلاﹰ بچوں کو گھر سے باہر کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے مگر ایسے کسی بھی جرم پر خود مکمل خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔‘‘

فرانس: 11 بشپس پر جنسی زیادتی کرنے کا الزام

احمد اعجاز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تیسری سطح پر ایسے واقعات اخبارات میں رپورٹ ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ اپنی تحقیق کے دوران میں نے خود دیکھا کہ 2013 کے الیکشن کے دنوں میں ایسے واقعات بہت کم سامنے آئے۔ مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ تب مقامی اخبارات میں انتخابی اشتہارات شائع ہو رہے تھے، اس لیے ایسے واقعات اخبارات میں جگہ کی کمی کے سبب بطور خبر اشاعت کا حصہ نہ بن سکے۔ اس طرح سالانہ بنیادوں پر شائع ہونے والی رپورٹوں میں ایسے جرائم کی بہت ہی معمولی تعداد سامنے آتی ہے، ورنہ صورت حال کہیں زیادہ بھیانک ہے۔"

بچوں سے جنسی زیادتیوں کے بڑھتے واقعات روکے کیسے جائیں؟

بچوں کے تحفظ کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کی چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر منیزہ بانو کہتی ہیں کہ بچوں کا اپنے حقوق سے آگاہ نہ ہونا بھی بڑا مسئلہ ہے۔

پاکستان میں نادرا نامی ادارے کی ویب سائٹ کا سکرین شاٹ
پاکستان میں نادرا نے اب ’سیکس اوفینڈرز رجسٹری‘ نامی ایک نیشنل آن لائن ڈیٹا بیس تیار کرنا بھی شروع کر دی ہےتصویر: NADRA

منیزہ بانو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ایسے واقعات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں۔ قانون سازی ہو رہی ہے مگر بچوں کی تربیت کا کوئی نظام نہیں۔ بچوں کی عمر کے مطابق مختلف کلاسز میں ان کے حقوق ان کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہییں تاکہ مثال کے طور پر انہیں پتہ ہو کہ غلط طور پر چھوئے جانے یا bad touch کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے یا رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے گھروں میں جاتے ہوئے کس چیز کا خیال رکھنا جانا چاہیے اور کوئی بھی پریشانی ہو تو فوراﹰ والدین کو بتانا چاہیے۔"

والدین کی ذمہ داری

احمد اعجاز کہتے ہیں، ''بچوں سے جنسی زیادتیوں کی کوئی بھی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیں، اجنبی ملزمان کی تعداد بہت کم ہو گی۔ ایسے جرائم کے مرتکب زیادہ تر پڑوسی، رشتہ دار یا اہل محلہ ہی ہوتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا، ”ہم بچوں کے حوالے سے غیر حساس اور لاپرواہ لوگ ہیں۔ بچے سارا دن پڑوسیوں کے گھروں میں کھیل رہے ہیں۔ وہاں مختلف عمروں کے بچے ہوتے ہیں، جو موقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو اکیلے دکان پر کچھ خریدنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ گھر میں کوئی رشتہ دار آ جائے، تو بچہ فوراﹰ اس کی گود میں دے دیا جاتا ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ واقعی  بہت حساس معاملہ ہے۔ اس لیے والدین کو عملی طور پر بھی زیادہ ذمہ داری اپنے سر لینا ہو گی۔"

برطانوی قاتل، جس نے 101 مردہ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی

پاکستانی صوبہ پنجاب کے ایک گاؤں میں ایک بچے سے جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کیے گئے، ایک تھانے میں زیر حراست پانچ مشتبہ ملزمان
بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم کے مرتکب زیادہ تر ملزم متاثرین کے پڑوسی، رشتہ دار یا اہل محلہ ہی ہوتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

ڈاکٹر منیزہ بانو کہتی ہیں، ''والدین کی ایک اہم ذمہ داری بچوں کے دوستوں پر نظر رکھنا اور انہیں جاننا بھی ہے۔ خاص طور پر ایسے دوست جو عمر میں قدرے بڑے ہوں۔ بچہ جس جگہ کھیلتا ہے، جس جگہ پڑھتا ہے، اس کی آمد و رفت کے راستوں اور وقت، والدین کو ہر بات پر نظر رکھنا چاہیے۔"

متاثرہ بچے تنہائی کا شکار

محکمہ داخلہ پنجاب کی رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، ''خاندان کے ارکان، دوستوں اور پڑوسیوں یا برادری کی جانب سے ایسے کسی جرم کے بعد تعاون کی کمی متاثرہ بچوں کو تنہائی کا شکار بھی کر دیتی ہے۔ پھر وہ اپنے ساتھ ہونے والے جرم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں اور کئی طرح کی نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔"

ایک سال میں اٹھارہ ہزار جرمن بچوں، نوجوانوں کا جنسی استحصال

اس حوالے سے بچوں کی طبی نفسیات کی ماہر حنا الطاف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بچپن میں جنسی استحصال کا بہت تکلیف دہ تجربہ زندگی بھر کے لیے نفسیاتی مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے والدین کو نہ صرف ایسے واقعات رپورٹ کرنا چاہییں بلکہ بچوں کی صحت اور بحالی صحت پر بھی توجہ دینا چاہیے۔ خاص طور پر اگر بچے خوف کی وجہ سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پاتے، تو یہ بات ان کی پوری شخصیت کو تباہ کر دیتی ہے۔"

کم سن لڑکوں کا جنسی استحصال: وجوہات کیا، ذمہ دار کون؟

نیشنل سیکس اوفینڈرز رجسٹری کیا ہے؟

پاکستان میں حال ہی میں نادرا نامی ادارے نے بچوں اور خواتین کا جنسی استحصال روکنے کے لیے 'سیکس اوفینڈرز‘ کے ریکارڈ پر مبنی ایک آن لائن ڈیٹا بیس تیار کرنے کا آغاز کیا ہے، جس کا نام 'نیشنل سیکس اوفینڈرز رجسٹری‘ رکھا گیا ہے۔

اس عمل کے ذریعے عام شہری 13 ہندسوں پر مشتمل کسی بھی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ یا CNIC کا نمبر ایس ایم ایس کے ذریعے 7000 پر بھیج سکتے ہیں۔ جواباﹰ نادرا کی طرف سے تصدیقی عمل کے بعد ایس ایم ایس بھیجنے والے فرد کو اردو میں جواب آئے گا، جس میں یہ بتا دیا جائے گا کہ جس فرد کے شناختی کارڈ کا نمبر بھیجا گیا تھا، اس کا نام جنسی مجرموں کی فہرست میں شامل ہے یا نہیں۔

دو عشروں میں چوبیس خواتین کا ریپ، لندن پولیس کے افسر کا اعتراف جرم

اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر کسی فرد کا نام اس رجسٹری میں موجود ہے، تو وہ بچوں یا خواتین کے ریپ یا ان کے خلاف دیگر جنسی جرائم میں مصدقہ طور پر ملوث رہا ہے۔ ایسی صورت میں ایسے کسی بھی فرد کو ملازمت دیتے ہوئے یا بچوں کو اس کے آس پاس بھیجتے ہوئے احتیاط کی جانا چاہیے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر منیزہ بانو کہتی ہیں، ''یہ انتہائی مؤثر اقدام ہے۔ کیوں کہ بہت سے واقعات میں ایک مجرم جگہیں تبدیل کرتے ہوئے کئی افراد کو نشانہ بناتا ہے۔ جب ایسے کسی جنسی مجرم کے خلاف پیشگی معلومات میسر ہوں گی، تو پیشگی احتیاط ممکن ہو سکے گی۔‘‘

جرمنی میں ہزاروں بچے پادریوں کی ہوس کا شکار