1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پردیسیوں کی عید

4 جون 2019

آفس جاتے ہوئے میں راستے میں ایک جگہ بیٹھی ہر آتے جاتے شخص کو ٹکٹکی باندھ کر  بغور دیکھتی رہی۔ ہر ایک شخص جلدی میں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ ان میں سے کو ئی بھی نہیں جو مجھ سے عید ملے۔

https://p.dw.com/p/3JoFM
DW Rafia Riaz, Indonesische Redaktion
تصویر: DW

آج کی صبح کچھ مختلف کیوں ہے؟ وہی روشنی ہے وہی تازہ ہوا ہے گھر سے آفس تک کے وہی پرانے راستے ہیں ۔مگر آج  یہ گلیاں کچھ زیادہ سنسان کیوں محسوس ہو رہی ہیں۔میرے جسم کو چھو لینے والی یہ ہوا مجھے ہر لمحہ اداس کر کے گزر رہی ہے۔آج پرندوں کے گیت میں وہ سرگم کیوں نہیں سنائی دے رہی۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ چرند پرند خاموشی کی بولیاں بھی سمجھ لیتے ہیں۔ ۔تو کہیں ان کو کسی پردیسی کی عید کا احساس تو نہیں۔۔۔؟

نہ بچے گلیوں میں نئے لباس پہنے کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ نہ گھر کے بڑے نماز عید پڑھ کر لوٹے ہیں۔نہ ماں گھر پہ شیر خرمہ پکارہی ہیں۔نہ ہی ننھی بھّیا سے زیادہ عیدی کی ضد کر رہی ہے۔نہ ہی آپا کی چوڑیوں کی کھنک سنائی دے رہی ہے۔

گھر سے آفس جانے کا یہ راستہ آج سے پہلے کبھی اتنا بوجھل محسوس نہیں ہوا۔ایک ایک قدم ایک میل جیسا محسوس ہوتا ہے۔آج ماں  نے پیار بھری آواز میں نہیں جگایا،’’ اٹھو بٹیا، ابا عید کی نماز پڑھ کر لوٹتے ہی ہوں گے۔جلدی سے تیار ہو جاؤ ورنہ عیدی نہیں ملے گی۔‘‘ماں کے یہ دو بول آج اپنی قیمت کا احساس دلا رہے ہیں۔

آفس جاتے ہوئے میں راستے میں ایک جگہ بیٹھی ہر آتے جاتے شخص کو ٹکٹکی باندھ کر  بغور دیکھتی رہی۔ ہر ایک شخص جلدی میں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ ان میں سے کو ئی بھی نہیں جو مجھ سے عید ملے۔در اصل انہیں معلوم ہی نہیں کہ میرے دیس میں عید آئی ہے۔

اسی اداسی کے سبب میں مٹی پر بیٹھی درخت کے ساتھ ٹیک لگاتی ہوں۔کچھ لمحوں کےلیے آنکھیں بند کرلیتی ہوں۔اپنے بچپن کی عید کی کچھ یادیں تازہ کرتی ہوں۔۔۔ دروازے پر کھڑی ایک ننھی پری آواز لگاتی ہے۔آنٹی۔۔ ہم رافعہ کو لینے آئے ہیں۔ ماں جی اپنی گڑیا کو چوڑیاں پہنانے میں مصروف اجلت میں جواب دیتی ہیں۔ارسہ بیٹی اندر آجاؤ۔بس ہوگئی ہے تیار۔صبح سے اٹھا اٹھا کر تھک گئی ہوں۔اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتی یہ لڑکی! اس کے سر پر تو ڈھول بھی بجتا رہے تو نہیں جاگتی۔۔۔رافعہ کی بے چینی دیدنی تھی کہ ارسہ نے کیسا لباس پہنا ہے اور وہ کیسی لگ رہی ہے۔(در اصل عید کے کپڑے سرپرائیز کی غرض سے ایک دوسرے سے ارادتاً  چھپائے جاتے ہیں) اتنی ہی دیر میں دروازہ کھلا پا کر نازیہ داخل ہوتی ہے۔ نازیہ ۔آنٹی امّی نے یہ شیر خرمہ بھجوایا ہے آپ کے لیے۔ ۔۔۔رافعہ دروازے کی جانب لپکتی ہے۔ارسہ اور نازیہ دونوں سے عید ملتی ہے۔تینوں سہیلیاں اکٹھے بیٹھ کر شیر خرمے کے مزے لوٹ رہی ہیں اور پھر مقابلہ، کہ کس کی مہندی کا رنگ تیز آیا ہے۔ہمیشہ کی طرح اس سال بھی میری مہندی کا رنگ تیز آیا ہے، اس کا مطلب ہے میں تم دونوں سے زیادہ محبت کرتی ہوں۔(رافعہ کا لقمہ)۔۔ ارسہ اداسی سے۔۔ محبت تو میں بھی بہت کرتی ہوں، پر نہ جانے رنگ کیوں نہیں چڑھتا۔۔۔۔نازیہ کہتی ہے ارسہ کی مہندی خراب ہوگی اسی لیے رنگ نہیں چڑھا اب ا ٹھو بھی چلو نا! بڑے روڈ پر (گلی کہ اختتام پر ایک عام سڑک جو بچپن میں دنیا کی سب سے بڑی شاہراہ لگتی تھی)پر بھی جانا ہے وہاں بڑے بڑے جھولے لگے ہیں۔

تینوں سہلیاں جھولے جھولتیں تو کبھی آئیس کریم کھاتی، اپنے اپنے سنہری پرسوں سے عیدی کے نوٹ نکال کر گنتیں۔گھر لوٹنے کا تو جیسے نام ہی نہیں۔کہیں جلیبیاں پک رہی ہیں۔تو کہیں کلیجی بھونی جا رہی ہے۔بچیاں جھولے جھول رہی ہیں تو بچے بندوق سے غباروں کے نشانے لگا رہے ہیں۔ڈولی والے جھولے میں بیٹھی رافعہ اوپر سے تالیاں پیٹ پیٹ کر اپنے ساتھیوں کو داد دیتی۔۔شاباش میرے دوست زبردست! اس ننھی پری کے قہقہے جھولے والا بھی سن کر محظوظ ہوتا رہا۔نازیہ رافعہ کو فراک سے پکڑ کر بٹھا دیتی، ارے بیٹھ جاؤ، گر جاؤ گی چوٹ لگ جائے گی۔اتنی دیر میں ارسہ کا چھوٹا بھائی عزیر آواز لگاتا ہے۔رافعہ آپکی امی بلا رہی ہیں۔آپکے ڈاکٹر ماموں عید ملنے آئے ہیں۔۔۔۔ماموں!واقعی؟ جھولے کی سیر آناﹰفاناﹰ ختم ہوئی رافعہ گھر کی جانب دوڑتی ہے۔نازیہ جو کہ پچپن سے ہی بہت سمجھدار تھی اسکی آوازیں رافعہ کا تعاقب کرتی ہیں۔ارے رافعہ دیکھ کر آرام سے۔۔چوٹ نہ لگ جائے۔۔۔رافعہ،نہیں لگتی مجھے عادت ہے تیز دوڑنے کی۔۔۔رافعہ فراٹے بھرتی گاڑی کی طرح اڑتی گئی۔۔یہ جا وہ جا۔۔۔

تیز ہوا کے جھونکے سے چند زرد پتے پیڑ کے سائے میں بیٹھی رافعہ کے چہرے پر آگرتے ہیں۔اور اسکی آنکھ کھل جاتی ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو کیا دیکھتی ہے۔نہ ارسہ ہے،نہ نازیہ، نہ ہاتھوں میں مہندی نہ ہی سنہری پرس،نہ فراک نہ چوڑیاں  نہ جھولے۔۔۔یہ میں کہاں آگئی؟ میری سہیلیاں کہاں ہیں؟اور وہ بچپن کی عید جسے ابھی اور جینا تھا؟ آج میرا ویران گھر جو عید کی خوشبو سے معطر نہیں ہے کاٹنے کو دوڑ رہا ہے۔نہ ابّا عید پڑھ کر لوٹے ہیں نہ ہی شیر خرمہ پکا ہے۔اس گھر سے آج دامن چھڑا کر آفس آنا مجھے اتنا مشکل کبھی نہیں لگا تھا۔ ماضی کی یادوں میں ڈوبا اس کا سپاٹ اداس چہرہ ہر اجنبی کو سوالیہ آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ جیسے عید کی مبارک باد مانگ رہا ہو۔

اپنے دیس کے رنگ کتنے پکے اور دائمی ہیں اس کا اندازہ مجھے پردیس آکر ہوا ہے۔ان گولڈن بالوں والے گوروں میں کوئی بھی میرے جیسا نہیں دکھتا۔اجنبیت اور بیگانگی جیسے لفظوں کے معنی اور مفہوم کی گہرائی یورپ نے سکھائی ہے۔ اپنے کپڑوں سے مٹی جھاڑتے ہوئے میں اٹھتی ہوں اور آفس کی جانب چل پڑتی ہوں۔

اپنی خود کلامی میں محو منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی ہوں۔اُس زمانے میں تو اسمارٹ فون بھی نہیں تھا کہ ماں فون کر کہ پوچھ لیتی کہاں رہ گئی ہو ماموں سے آکر ملو۔اماں کو اپنے بھیجے ہوئے میسنجر پر کتنا یقین تھا کہ یہ رافعہ کو پیغام دے آئے گا۔اور وہ لوٹ آئے گی۔وہ بچپن کی یاد میرے چہرے پر مسکراہٹ دے گئی۔میری سانسیں، پھولوں کی مہک اور مہندی کی خشبو سے معطر ہونے لگیں۔جھولے میں جھومتی گاتی رافعہ کی آوازیں کافی دیر میرا تعاقب کرتی رہیں۔میں مسکراتی رہی۔۔نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آفس آچکا تھا۔میں نے کچھ لمحے اور اپنے قدم دہلیز پر روک لیے پیچھے پلٹ کر ارسہ کو مخاطب کر کے کہا،’’تمھاری مہندی کا رنگ کچا سہی مگر محبت پکی ہے۔۔۔آج پردیس میں مجھے تمھاری بات کا اعتبار آہی گیا۔۔‘‘