1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہم مرے تو یہ دنیا کی سب سے بڑی خبر ہوگی‘

31 مئی 2019

پاکستان کے معروف صحافی اور سینیئر تجزیہ کار ادریس بختیار دنیا فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات اور اپنی یاداشتیں پیش کی ہیں رفعت سعید نے اپنے اس بلاگ میں۔

https://p.dw.com/p/3JYlC
Pakistan Idrees Bakhtiar Journalist
تصویر: Facebook

میں ان کی میت کے سرہانے بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اس دوران ایسے ان گنت واقعات ہیں جنہیں تحریر میں لاکر ادریس بھائی کی اعلٰی شخصیت اور صحافت کے لیے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاسکتا ہے۔ ادریس بھائی کی زندگی میں بھی کئی بار ارادہ کیا کہ ان کےساتھ بیتے یادگار لمحات کو قلم بند کیا جائے لیکن ہر بار ہمت یہیں آکر ٹوٹ گئی کہ شروع کہاں سے کروں۔

چلیں 10 اگست1999 سے ہی شروع کرتا ہوں، بھارتی طیاروں نے پاکستان نیوی کا ایک تربیتی طیارہ مار گرایا، تاہم طیارے کا ملبہ سرحد کے قریب پاکستانی علاقے میں گرا، اس وقت ذرائع ابلاغ بہت محدود تھے لہٰذا پاکستانی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر راشد قریشی نے بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور خبر رساں ایجنسیز کے نامہ نگاروں کو کمانڈر نیوی کراچی کے دفتر میں جمع کیا جہاں سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے صحافیوں کو اس مقام پر لے جانا تھا جہاں طیارے کا ملبہ پڑا تھا۔ راستے میں بریگیڈیئر راشد قریشی نے ہیلی کاپٹر زمین پر اترنے سے پہلے ہی ہمیں بریفنگ دینا شروع کردی جس پر ادریس بھائی نے طنزاً کہا کہ راشد صاحب ہم جائے وقوعہ پر اتریں گے؟ راشد قریشی نے جواب میں کہا کہ ادریس صاحب بہت خطرہ ہے ہم اب بھی انڈین راڈار پر ہیں۔ راشد قریشی کے خوفزدہ جملوں پر ادریس بھائی نے انتہائی بے خوفی سے کہا، ’’اگر ہم مرے تو دنیا کی سب سے بڑی خبر ہوگی۔‘‘ ادریس بھائی کے اس ایک جملے سے راشد قریشی لاجواب ہوگئے اور فوری پائلٹ کو ہیلی کاپٹر نیچے اتارنے کی ہدایت کردی۔

Archivbilder von DW Korrespondent Idris Bakhtiar & Raffat Saeed
پاکستانی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر راشد قریشی نے بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور خبر رساں ایجنسیز کے نامہ نگاروں کو کمانڈر نیوی کراچی کے دفتر میں جمع کیا جہاں سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے صحافیوں کو اس مقام پر لے جانا تھا جہاں طیارے کا ملبہ پڑا تھا۔تصویر: DW/R. Saeed

ایسے کئی واقعات ہیں جن سے دھیمے مزاج کے ادریس بختیار کی مخلصی، انسان دوستی، اورساتھیوں سے محبت عیاں ہوتی۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں کراچی لسانیت کی آگ میں بھڑک رہا تھا۔ ادریس بھائی ہیرالڈ میگزین اور بی بی سی جبکہ میں مقامی ہفت روزہ تکبیر کے ساتھ جرمن ریڈیو ڈوئچے ویلے کے لیے رپورٹنگ کرتا تھا۔ ریڈیو کے لیے آوازیں بہت اہم ہوا کرتی ہیں جن کی ریکارڈنگ میں نے ادریس بھائی سے ہی سیکھی۔
شہر کے حالات بدترین نہچ پر تھے، درجنوں بوری بند لاشیں ملنا معمول بن چکا تھا مگر روز صبح فون کی گھنٹی بچتی، فون اٹھانے پر دوسری جانب سے آواز آتی، ’’ادریس بول رہا ہوں، نیند پوری ہوگئی ہوتو گھر آجاو۔‘‘ اس وقت میں فیڈرل بی ایریا گلبرگ اور وہ بلاک 19 میں رہائش پذیر تھے۔ حکم کی تعمیل میں اپنی ہونڈا 125 موٹر سائیکل پر ان کے گھر پہنچ جاتا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر ادریس بھائی اپنی ویسپا اسکوٹر پر سوار ہو کر نکلتے اور دن بھر ادھر سے ادھر خبروں کی تلاش میں پھرتے۔ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن جاری تھا لہٰذا ہفتے میں دو سے تین مرتبہ پولیس افسر بہادر علی سے ملاقات لازم تھی۔ اس کے علاوہ ادریس بھائی اور میرے محلے سے پکڑے جانے والے بے گناہ لڑکوں کی رہائی کے لیے بھی اکثر بہادر علی سے ہم دونوں کا ہی رابطہ رہتا تھا۔
اس زمانے میں موبائل فون نیا نیا متعارف ہواتھا اور ادریس بھائی ان چند صحافیوں میں سے تھے جو موبائل فون رکھتے تھے۔ البتہ ہم جیسے صحافیوں کے لیے ڈی سی پیجر کے ذریعے پیغام رسانی عام ہوچکی تھی۔ وزیر اعلٰی لیاقت جتوئی کے طاقتور وزیر داخلہ عرفان اللہ مروت اور ان کے دست راز سمیع اللہ مروت کے کارناموں پر اسٹوری ادریس بھائی نے میرے ہی ساتھ کی تھی۔ جس کے بعد اس وقت کی پولیس اسٹیبلشمنٹ کو ہم دونوں کے پیچھے لگا دیا گیا تھا۔ جب پولیس نے میرے گھر پر رات کے اندھرے میں چھاپہ مارا تو سب سے پہلے میری مدد کو پہنچنے والے ادریس بھائی ہی تھے، جنہوں نے پولیس کو مجھے تحویل میں لینے نہیں دیا بلکہ میرے ساتھ خود موبائل میں بیٹھ کر تھانے گئے اور مجھے اپنے ہمراہ ہی صحیح سلامت گھر تک واپس چھوڑ گئے۔
ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم طارق منظر عام پر آئے تو بھی میں اور ادریس بھائی ساتھ ہی ان کی پریس کانفرنس کی کوریج کے لیے پہنچے۔
ادریس بختیار کی ہیرالڈ کے لیے اسٹوری ’’ان سائڈ سی آئی اے‘‘ نے اس وقت کے حکمرانوں میں ایسی کھلبلی مچائی کے پولیس نے ایم کیو ایم کے مسلح لڑکوں کو پناہ دینے کے الزام میں ادریس بھائی کے گھر پر چھاپہ ماردیا، لیکن پولیس کو ملا کچھ نہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف امریکا روانگی سے قبل ایک روزہ دورے پر کراچی آرہے تھے لہٰذا میں نے تجویز دی کہ ہم احتجاجاﹰ ان کے پروگرام کا بائیکاٹ کریں جسے سوائے ادریس بھائی کے تمام ساتھیوں نے منظور کیا مگر ادریس بھائی جانتے تھے کہ وزیر اعظم کے دورہ امریکا پر مجھے بھی ان کے ساتھ جانا ہے لہٰذا انہوں نے بائیکاٹ سے منع کیا لیکن اس دن پہلی مرتبہ میں نے ان کی بات نہیں مانی جس پر وہ چند روز کے لیے مجھ سے خفا بھی ہوئے۔ کراچی کے صحافیوں نے وزیر اعظم کا بھرپور بائیکاٹ کیا جس پر اس وقت کے وزیر اعلٰی لیاقت جتوئی کی خاصی سرزنش بھی ہوئی۔
ادریس بھائی اور میرا ساتھ بہت مشکل بھی تھا کیونکہ وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانے کے عادی تھے جبکہ میں ٹھہرا جذباتی انسان۔ مگر میرا ادریس بھائی کے بغیر گزارا بھی نہیں تھا۔ وہ مجھ سے کتنے ہی خفا کیوں نہ ہوں یا میری بات سے اختلاف رکھیں، مگر وہ ہمیشہ میرے بارے میں فکرمند رہتے۔
ہفت روزہ تکبیر کی ایم کیو ایم کے حوالے سے پالیسی کے باعث اکثر مجھے دھمکیوں کا سامنا رہتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ادریس بھائی نے ان دنوں میں مجھے کبھی تنہا نائن زیرو جانے نہیں دیا۔ راؤ انوار نے جب نائن زیرو پر چھاپہ مارا تو الطاف حسین نے لندن سے ادریس بھائی کو فون کیا اور پھر میں اور ادریس بھائی ساتھ نائن زیرو گئے ۔
ادریس بختیار ویسے تو بہت سے خوبیوں کے مالک تھے لیکن جب ان سے کسی بھی معاملے پر رائے لی جاتی تو وہ مکمل اور جامع ہوا کرتی تھی۔ ڈان ٹی وی سے فراغت کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے مجھے اپنا میڈیا ایڈوائزر بننے کی پیشکش کی، میں نے اس پر ادریس بھائی سے مشورہ کیا تو بولے، ’’نوکری اچھی ہے لیکن وزیر داخلہ سے تمھاری بے تکلفی ختم ہوجائے گی۔ ابھی مرضی سے ملتے ہو مگر پھر فائل بغل میں دبا کر کھڑے رہنا ہوگا جو تمہارے مزاج کے خلاف ہے، تم یہ نوکری کرسکو گے؟‘‘ بات میری سجھ میں آگئی تو رحمان ملک کو شکریہ کرکے بات ختم کردی۔
ایسے کئی واقعات ہیں جب میں نے ناتجربی کاری کے باعث غلطیاں کیں اور ادریس بھائی نے ناراضگی کا اظہار کیا مگر انہوں نے کبھی میرا ساتھ چھوڑا نہیں۔ 2001ء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی اور امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ اطلاع ملی کہ بڑی تعداد میں لوگ پاکستان آرہے ہیں۔ ادریس بھائی اور میں کوئٹہ پہنچے جہاں سے میں انہیں بغیر بتائے چمن اور پھر سرحد پار کرکے قندھار چلا گیا۔ جب ادریس بھائی کو علم ہوا تو خاصے ناراض ہوئے چار روز بعد واپسی ہوئی تو بہت ڈانٹا اور بولے، ’’اپنا نہیں تو بوڑھے والدین کا کچھ خیال کرو۔’’ اور اس دن ادریس بھائی نے مجھے بتایا کہ خبر کے لیے خود خبر بننا درست نہیں۔
ادریس بھائی کے ساتھ 30 سالہ سفر صحافت میں انہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی۔ جنرل مشرف کے دورہ بھارت میں بھی میں اور ادریس بھائی ساتھ تھے۔ واپسی پر روزنامہ ڈان کے نمائندے غلام حسنین کو حساس اداروں نے گھر سے دفتر جاتے ہوئے تحویل میں لے لیا۔ غلام حسنین کی اہلیہ سے معلوم ہوا کہ حسنین غائب ہی‍ں۔ ادریس بھائی نے میرے علاوہ  قصر محمود، اظہر عباس، مظہر عباس اور دیگر سینیئر ساتھیوں کو پریس کلب میں جمع کیا اور مشترکہ حکمت عملی طے کی گئی۔ ایک سینیئر پولیس افسر نے بھی ہماری بھرپور مدد کی اور ہم غلام حسنین کو رہا کرانے میں کامیاب رہے۔
ادریس بھائی اکثر کہا کرتے تھے کہ طبعی موت مرے تو سنگل کالم کی خبر ہی چھپے گی اور اس کی دلیل کے طور پر وہ ایڈیٹر تکبیر صلاح الدین کی مثال دیتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر صلاح الدین صاحب دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید نہ ہوئے ہوتے تو اتنی بڑی خبر نہ بنتی۔ لیکن یہاں ادریس بھائی غلط ثابت ہوئے۔ 29 مئی 2019ء کا دن ادریس بختیار کی لمبی صحافتی اننگز کا آخری دن ثابت ہوا۔ لیکن اپنے پیچھے وہ اپنے چاہنے والوں اور صحافتی برادری کو کس قدر رنجیدہ کر گئے اس کا اندازہ شاید ادریس بھائی کو خود بھی نہیں تھا۔

Pakistan Karachi - Beerdigung von Idrees Bakhtiar
اپنے پیچھے وہ اپنے چاہنے والوں اور صحافتی برادری کو کس قدر رنجیدہ کر گئے اس کا اندازہ شاید ادریس بھائی کو خود بھی نہیں تھا۔تصویر: Imago Images/ZUMA Press/PPI
Archivbilder von DW Korrespondent Raffat Saeed |  Idris Bakhtiar verstorbener pakistanischer Journalist
ادریس بھائی کے ساتھ 30 سالہ سفر صحافت میں انہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی۔ تصویر: DW/R. Saeed


نوٹڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔