1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'پاکستانی معیشت کو بحال ہونے میں کم از کم دو سال لگیں گے‘

بینش جاوید
9 جنوری 2020

عالمی بینک کے مطابق پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اقتصادی اقدامات کے باعث سال 2020 میں پاکستان کی اقتصادی شرح نمو قریب تین فیصد رہے گی۔ حکومت معیشت کو استحکام دینے کی پالیسیوں پر گامزن ہے۔

https://p.dw.com/p/3VwaU
تصویر: Imago

عالمی بینک کی رپورٹ ' گلوبل اکنامک پراسپیکٹس‘ میں پاکستان سے متعلق کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے سخت معاشی اقدامات کے باعث ملک میں سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے اور نجی کھپت میں بھی خاصی کمی آئی ہے۔ پاکستان میں معاشی سال 2018-19 میں معیشت کی شرح نمو 3.3 فیصد رہی جو ملک میں مجموعی پیداوار اور مانگ کی گراوٹ ظاہر کرتی ہے۔

 پاکستانی روپے کی قدر میں بھی کمی آئی۔ گزشتہ سال پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) سے چھ ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو کہا گیا تھا کہ پاکستانی کرنسی کو 'فری فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ‘ پر لانا ہوگا یعنی کہ پاکستان کے روپے کی قدر کا تعین مارکیٹ میں روپے کی مانگ اور رسد کرے گی۔ ماضی میں پاکستان کا اسٹیٹ بینک مارکیٹ میں ڈالر کی رسد کو زر مبادلہ کے ذخائر سے کنٹرول کر رہا تھا  جس کے باعث ڈالر کی مانگ میں اضافے کے باوجود روپے کی قدر نہیں گرتی تھی۔ آئی ایم ایف کی اس شرط کو پورا کرنے کے ساتھ ہی پاکستانی روپے کی قدر میں فوری کمی آئی۔ اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا۔

 مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت نے مانیٹری پالیسی کو مزید سخت کرتے ہوئے شرح سود میں اضافہ کیا تو چھوٹے اور درمیانے درجے کی کاروباری کمپنمیوں اور تاجروں کے لیے قرضہ لینا مشکل ہو گیا۔ عالمی بینک کا یہ بھی کہنا ہےکہ پاکستانی حکومت کو کم ٹیکس وصولی اور پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث قرضوں پر دیے جانے والے شرح سود میں اضافہ ہوا۔ ان وجوہات کے باعث پاکستان کو بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔

کیا پاکستانی حکومت کے اقدامات پاکستانی معیشیت کے لیے درست ہیں ؟  اس حوالے سے اقتصادی ماہر ثاقب شیرانی کا کہنا ہے،''پاکستان بحران کے بعد معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، مانگ کو کم کرنا، شرح سود کو بڑھانا، درآمدات کو کم کرنا یہ حکومت کی مجبوری بھی تھی۔ 2018 میں جو اقتصادی بحران شروع ہوا وہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران تھا۔  پاکستان کو بجٹ اورکرنٹ اکاؤنٹ  کےخسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ اب حکومت معیشت میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے میں شرح نمو کو سست کر دیا جاتا ہے۔‘‘

پاکستانی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے، آئی ایم ایف

سن 2019 پاکستانی معيشت کے ليے کيسا ثابت ہوا؟

ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے معاشی ماہرین کی رائے میں شرح سود بڑھانا لازمی تھا لیکن پاکستان نے شرح سود زیادہ بڑھا دیا ہے اور اس کے منفی نتائج نظر آ رہے ہیں۔ یہ سرمایہ کاری کو طول دے رہا ہے۔ حکومتی بجٹ پر بہت زیادہ دباؤ بڑھ رہا ہے کیوں کہ سسٹم میں حکومت نے سب سے زیادہ قرض لیا ہوا ہے اور شرح سود کے بڑھ جانے سے بجٹ کا ایک بڑا حصہ شرح سود کی ادائیگیوں میں جا رہا ہے۔

ثاقب شیرانی کہتے ہیں پاکستان کی معیشت میں بہتری آنے میں کم از کم دو سال مزید لگیں گے جب شرح نمو چار سے پانچ فیصد جانا شروع ہوجائے گی۔

شیرانی کہتے ہیں حکومت نے گیس کے نرخ اور ٹیکس ہی نہیں بڑھایا بلکہ اسمگلنگ کی روک تھام اور تاجروں سے دستاویزی ریکارڈ فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ''حکومت نے ایسے لوگوں پر ہاتھ ڈالا ہے جو نہ ٹیکس دیتے ہیں اور نہ دستاویزی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اس لیے معیشت میں تیزی پیدا ہونے میں مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔‘‘