1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولپاکستان

پاکستانی معیشت میں زیتون کی کاشت کی اہمیت

30 اکتوبر 2022

بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی معیشت اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے۔ ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ زیتون کی پیداوار میں اضافہ ملک کی معیشت اور ماحول دونوں کے لیے سود مند ثابت ہو گا۔

https://p.dw.com/p/4IeJ4
Pakistan | Olivenproduktion
تصویر: Saadeqa Khan

پاکستان میںپنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے بہت سے علاقے جنگلی زیتون کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں سمجھے جاتے ہیں۔

ان علاقوں میں زیتون کی مختلف اقسام بڑے پیمانے پر کاشت کی جا رہی ہیں، جنہیں مقامی زبانوں یعنی پنجابی میں "کہو"، پشتو میں "خونہ" اور بلوچی میں "حث" کہتے ہیں۔

ان علاقوں میں زیتون کو مقامی درخت سمجھا جاتا ہے، جو خودرو ہے اور موافق آب و ہوا میں اس کے درخت تیزی سے پھل دینے لگتے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں کسان اور زمیندار زیتون کی افادیت سے پوری طرح واقف نہیں۔

اس سے تیل حاصل کرنے اور دیگر غذائی اشیاء کی تیاری کے لیے انہیں باقاعدہ تربیت کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں زیتون کی کاشت کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟

 ڈاکٹر فیاض عالم معروف سماجی کارکن اور ماہر زراعت ہیں۔ وہ پا کستان میں زیتون کی کاشت کی تاریخ پر ایک کتاب مرتب کرنے میں معروف صحافی شبیر سومرو کی مدد بھی کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر فیاض نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک عرصے سے اس طرح کے بیانات سن رہے تھے کہ پاکستان میں زیتون کا انقلاب لانے کا سہرا عمران خان کے بلین ٹری سونامی منصوبے کے سر ہے۔ اس حوالے سے ان کا تجسس جاگا اور انہوں نے پاکستان فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ پشاور کے لائبریری انچارج تحسین گیلانی سے رابطہ کیا۔

Pakistan | Olivenproduktion
 ڈاکٹر فیاض عالم ترناب ایگریکلچر انسٹیوٹ میں عملے کے ساتھ تصویر: Fayyaz Alam

تحسین گیلانی کی فراہم کردہ دستاویز جنوری سن1963 میں تحریر کی گئی تھی۔ اس کے مطابق 1866ء میں ایک انگریزی افسر نے راولپنڈی میں زیتون کی مختلف اقسام کے لگ بھگ ایک سو پودے لگائے تھے۔

اس کے بعد 1964ء میں ایوب خان کے دور میں اردن سے منگوا کر راولپنڈی اور گرد و نواح میں مزید پودے لگائے گئے جن پر بھرپور طریقے سے پھل آئے۔ لیکن بعد ازاں زیتون کی کاشت پر مناسب توجہ نہ دینے سے اس کی باقاعدہ پیداوار شروع نہیں ہو سکی۔

ڈاکٹر فیاض عالم بتاتے ہیں کہ 2001ء میں خیبر پختونخواہ میں ترناب اور مردان میں فارم ہاؤس بنا کر زیتون کی پیداو ار بڑھانے کے لیے یونٹس بنائے گئے، ’’اس کے بعد سن 2012 میں چکوال کو "وادی ِزیتون" قرار دے کر اس کی کاشت کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا۔

ابن ِفاضل ایک ماہر زراعت ہیں، جو کسانوں کو زیتون کی کاشت سے متعلق تربیت بھی دیتے ہیں۔

انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں زیتون بہت تیزی سے ترقی کرنے والی غذائی جنس کے طور پر سامنے آیا ہے، ''ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ مستقبل میں زیتوں ملک میں جاری معاشی بحران سے نمٹنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘

 زیتون ملکی معیشت کی بہتری میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟

 بارانی ایگری کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محقق اور سائنسدان فرحان پاشا بتاتے ہیں کہ پاکستان میں تقریبا دس ملین ایکڑ زرعی زمین زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ترین ہے۔ یہ سپین میں زیتون کے زیر ِ کاشت رقبے سے دو گنا ہے۔ واضح رہے کہ سپین دنیا بھر میں زیتون کی پیداوار میں اول نمبر پر ہے۔

فرحان پاشا کے مطابق 2012ء میں چکوال میں شروع کیے جانے والے بڑے منصوبے اور بلین ٹری سونامی کے ثمرات اب آہستہ آہستہ سامنے آنے لگے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں 1500 ٹن زیتون کاشت کیا جا رہا ہے، جس سے 830 ٹن تیل حاصل کیا جاتا ہے۔

فرحان پاشا مزید بتاتے ہیں کہ پیداوار میں تیزی سے اضافے کو دیکھ کر بین الاقوامی زیتون کاؤنسل نے فروری 2022ء میں پاکستان کو اپنا ممبر منتخب کر کے مستقبل میں زیتون کی پیداوار بڑھانے کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔

واضح رہے کہ دنیا بھر سے اس کاؤنسل کے صرف انیس ممبران منتخب کیے گئے ہیں اور جنوبی ایشیاء سے پاکستان اس کا واحد ممبر ملک ہے۔

Pakistan | Olivenproduktion
1866ء میں ایک انگریزی افسر نے راولپنڈی میں زیتون کی مختلف اقسام کے لگ بھگ ایک سو پودے لگائے تھےتصویر: Saadeqa Khan

زیتون سے تیل نکالنے کے منصوبے

پاکستان میں اگنے والے جنگلی زیتون سے نکلنا والا تیل انتہائی اعلی کوالٹی کا حامل ہے۔ اس تیل کی چین، مراکش، تیونس، سپین اور دیگر ممالک میں بہت زیادہ مانگ بھی ہے۔

خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے کسان عمر مختار نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انہوں نے چھ برس قبل مختصر زرعی زمین پر زیتون کی کاشت کا آغاز کیا تھا۔ اپنی زمین پر اگنے والے زیتون سے وہ سادہ مشینوں کے ذریعے 8 فیصد تیل حاصل کرتے ہیں۔

اسی علاقے کے ایک اور زمیندار سید یوسف علی کے مطابق وہ ایک سو ایکڑ رقبے پر زیتون کاشت کرتے ہیں اور مختلف سائز کے زیتون کی پیکنگ کے لیے چین کی مشینیں استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ مشینیں نسبتا سستی اور استعمال میں آسان ہیں۔

 اس حوالے سے ڈاکٹر فیاض عالم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ زرعی تحقیقی مرکز ترناب فارم پشاور میں زیتون کے پھلوں سے بیج نکالنے اور سلائس بنانے کے لیے حال ہی میں جدید مشینیں نصب کی گئی ہیں جن سے علاقے کے تمام زمیندار استفادہ کر سکتے ہیں۔

یہ سینٹر چار دہائیوں سے کسانوں کو زیتون سے اچار، مربہ اور دیگر غذائی اشیاء بنانے کی تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔

زیتون کی کاشت کے ماحول پر اثرات کیا ہیں؟

بارانی ایگری کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدان فرحان پاشا کے مطابق بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے باعث پاکستان کے محض 5 فیصد رقبے پر جنگلات باقی رہ گئے ہیں۔

یہ تناسب ایکو سسٹم اور ماحول کی حفاظت کے لیے مختص کیے گئے بین الاقوامی معیار سے بہت کم ہے، جس کے مطابق کسی ملک کے 23 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا اشد ضروری ہے۔

فرحان پاشا کا کہنا تھا کہ کلائمٹ چینج کے باعث پاکستان تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے، ''اگرچہ ماضی میں شجر کاری اور بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے شروع کیے گئے مگر منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث اس امر کا خیال نہیں رکھا گیا کہ کس علاقے میں کس طرح کے درخت لگانا موزوں رہے گا۔‘‘

فرحان پاشا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر آب و ہوا اور ماحول کو مد نظر رکھ کر زیتون اور اسی طرح کے منافع بخش پھلوں کی کاشت کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے تو ناصرف ملکی معیشت بلکہ ماحول پر اس کے مثبت اثرات کچھ ہی عرصے میں سامنےآ جائیں گے۔

باجوڑ میں زیتون کی پیداوار کا رجحان کیسے فروغ پا رہا ہے؟