1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستانی والدین کی جگہ بھی کل کسی اولڈ ہوم میں ہو گی؟

9 جولائی 2021

پاکستان میں رہتے ہوئے انسان حیران نہ رہ جائے، یہ بات خود حیرانی کا سبب ہو گی۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ کوئی انسان اپنے والدین کو گھر سے کیسے نکال سکتا ہے؟ لیکن میری اس سوچ کی نفی آئے دن ہی ہوتی رہتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3wFjj
تصویر: Privat

اکثر والدین اپنی زندگی کی جمع پونجی سے گھر بناتے ہیں اور اپنی ہی اولاد انہیں گھر میں رکھے فالتو سامان کی طرح باہر نکال دیتی ہے۔ پاکستان کے مسلم اکثریتی آبادی والے معاشرے میں عام سوچ یہ ہے کہ مغربی دنیا اور مغربی ممالک بے راہ روی کا شکار ہیں۔ وہاں خاندان آپس میں جڑے ہوئے اور مضبوط نہیں ہوتے اور بڑھاپے میں اولاد والدین کا خیال نہیں کرتی۔ بہت سے پاکستانی مغربی دنیا کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں تو اولڈ ہوم ہوتے ہیں جبکہ پاکستانی معاشرے میں خاندانی قدریں باقی ہیں اور جوان اولاد بزرگی میں اپنے والدین کی دیکھ بھال کرتی ہے۔

یہ بات درست ہے مگر قطعی طور پر نہیں۔ اس لیے کہ اگر پاکستانی معاشرے میں ہر شہری پڑھاپے میں اپنے والدین کی دیکھ بھال اور خدمت کرتا ہوتا، تو حکومت کو اس بارے میں قانون سازی نہ کرنا پڑتی۔ ضعیفی میں والدین اور ان کے حقوق کے تحفظ اور ان سے اچھے برتاؤ کے لیے قانون سازی۔ ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کسی قانون کی کتابوں میں موجودگی کا لازمی مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس پر معاشرے میں عمل بھی ہوتا ہو۔

اس کی ایک تازہ مثال حال ہی میں صوبہ پنجاب کے شہر مظفر گڑھ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ ایک مقامی شہری نے اپنے بوڑھے والدین کے حقوق نظر انداز کیے، ان سے بدسلوکی کی اور انہیں گھر سے بھی نکال دیا۔ متاثرہ ماں باپ کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دینا پڑی۔ ملزم نے اپنی بیوی کے کہنے پر اپنے عمر رسیدہ والدین پر تشدد کر کے گھر سے نکال دیا تھا۔

درخواست پر کارروائی ہوئی اور 'ملزم بیٹے‘ کو ایک ماہ کے لیے جیل بھیج دینے کے علاوہ 50 ہزار روپے جرمانہ بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر نے پولیس کو ہدایت کی کہ ملزم سے تین دن کے اندر گھر خالی کرا لیا جائے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ گھر سے نکالے جانے کے بعد ملزم کی والدہ مختلف گھروں میں کام کر کے گزارہ کرتی رہی جبکہ اس کا قوت سماعت سے محروم شوہر رات کو ایک مقامی قبرستان میں سوتا تھا۔

یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ پاکستان بھی اسی دنیا کا ایک ملک ہے، جہاں رہنے والوں میں سے کئی لوگ خود پر عائد ہونے والے خاندانی، سماجی، مذہبی اور قانونی فرائض کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جن والدین نے بچپن میں اپنا پیٹ کاٹ کر اولاد کو جوان کیا ہوتا ہے، انہی کے احترام، اچھے برتاؤ اور خدمت سے انکار کر دیا جاتا ہے۔

تو پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشرے میں مسائل کو صرف قانون سازی سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ان قوانین پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔ معاشرے میں اقدار کی تنزلی اور مادہ پرستی کی دوڑ، دونوں کے تدارک کی ضرورت ہے۔ عام لوگوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ مادہ پرستی کی دوڑ تو کہیں ختم نہیں ہوتی اور احسان کا بدلہ صرف احسان ہی ہونا چاہیے۔ عہدوں میں ترقی، زیادہ بڑا  گھر، بڑی گاڑی اور زیادہ تنخواہ ہی سب کچھ نہیں ہوتے۔ انسان کی انسانیت تو کسی بھی مالی حالت میں ماں باپ کی عزت اور خدمت، اپنے خاندان کے ساتھ برتاؤ، عزیزوں دوستوں کے ساتھ اچھے رویے اور سماجی سطح پر دوسرے انسانوں کے لیے برداشت اور احترام کی سوچ سے ظاہر ہوتی ہے۔

سماجی تبدیلیوں کے دور سے گزرنے والے ترقی پذیر معاشروں کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں مسلمہ سماجی اور خاندانی اخلاقیات سے دور ہوتے جانا بھیڑ چال بن جاتا ہے۔ مظفر گڑھ میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ نہ تو پہلا تھا اور نہ ہی آخری۔ لیکن اس سے سیکھا یہ جانا چاہیے کہ کامیاب، انسان دوست اور فلاحی معاشروں ہر نسل کے افراد اپنے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان فرائض کی انجام دہی میں کسی ایک فرد کی کوتاہی بھی کئی دوسرے انسانوں اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہے۔

ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پاکستانی جنہیں آج بھی اس بات پر فخر ہے کہ ملکی معاشرے کی صدیوں پرانی اخلاقی اور خاندانی اقدار ابھی زندہ ہیں، آئندہ وہ بھی اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں اپنے گھروں سے بے دخل کیے جانے یا بدسلوکی کے بعد اپنے لیے اولڈ ہوم تلاش کرتے پھریں۔