1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان کی پابندی، پولیو مہم متاثر

29 جون 2012

پاکستان کے قبائلی علاقوں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کی طرف سے عائد کی گئی پابندی کےسبب دس روز گزر جانے کے باوجود ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے پولیو سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین کے قطرے پینے سے محروم ہیں۔

https://p.dw.com/p/15OFg
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ انسداد پولیو مہم کے تحت 20 جون سے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ایک لاکھ 61 ہزار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جانے تھے۔ تاہم سکیورٹی کی مخدوش صورتحال اور شدت پسندوں کی طرف سے دھمکیوں کی وجہ سے ان بچوں تک اب بھی پولیو سے بچاؤ کی ویکسین نہیں پہنچ سکی۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ممالک میں ہوتا ہے جہاں پولیو کا مہلک وائرس اب بھی موجود ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں رواں برس اب تک پولیو کے 22 نئے مریضوں کا اندراج کیا جا چکا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد مجموعی طور پر 198 رہی تھی۔

’ایک لاکھ 61 ہزار بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ گئے ہیں‘
’ایک لاکھ 61 ہزار بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ گئے ہیں‘تصویر: DW

پاکستانی وزارت صحت کے مطابق شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پانچ سال سے کم عمر کے 3 لاکھ 20 ہزار بچے ہیں، جنہیں پولیو ویکسین کی باقاعدہ ضرورت ہے۔ وزارت صحت کے ایک ترجمان مظہر نثار نے بتایا،’ابھی تک جو مہم متاثر ہوئی ہے، وہ 20 جون کو شروع ہونا تھی، جو کچھ مخصوص علاقوں کے لیے ترتیب دی گئی تھی، جہاں پر ماہرین کے خیال میں پولیو پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں ایک لاکھ 61 ہزار بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ گئے ہیں، جس سے صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں کو سخت تشویش لاحق ہے‘۔

اسلام آباد میں قائم فاٹا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشرف کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال 2 مئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے پیچھے جعلی پولیو مہم کے انکشاف کے بعد شدت پسند پولیو مہم کی اور بھی زیادہ مخالفت کر رہے ہیں۔ ڈا کٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری اور سزا نے شدت پسندوں کےاس پراپیگنڈے کو تقویت دی ہے کہ امریکہ صحت کے شعبے میں مختلف مہمات کی آڑ میں قبائلی علاقوں کی جاسوسی کر رہا ہے۔

ڈاکٹر اشرف کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں شدت پسندوں نے پولیو مہم پر پابندی کے لیے اس خطرے کو بھی جواز بنایا ہے کہ پولیو کے خاتمے کی آڑ میں امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ ڈرون حملوں کو مطلوبہ ہدف نشانہ بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اشرف کا کہنا تھا کہ ’اس وقت فاٹا کے اندر بہت سی ایسی جگہیں ہیں، جہاں پر پولیو مہم کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ جن میں مہمند اور باجوڑ ایجنسی شامل ہے لیکن بدقسمتی سے ان علاقوں میں اب ہماری رسائی تو ہے لیکن شدت پسندوں کے الزامات کی وجہ سے اب یہاں کام نہیں کیا جا سکتا۔ تو واقعی یہ ایک ایسا المیہ ہے، جس سے بہت سے بچے پولیو مہم کے فوائد سے محروم رہ جائیں گے‘۔

مظہر نثار کے مطابق سرکاری سطح پر قبائلی علاقوں کی مقامی انتظامیہ کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ لاکھوں بچوں کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔

تاہم تجزیہ نگار ڈاکٹر اشرف کا کہنا ہے کہ شدت پسند ماضی کی طرح پولیو مہم کے خلاف اپنا پراپیگنڈہ جاری رکھیں گے اور اسے ڈرون حملوں کی مخالفت کے لیے بھی استعمال کریں گے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں