1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی خواتین اپنے پیسے کہاں انویسٹ کر سکتی ہیں؟

3 جون 2021

پاکستان میں خواتین بہت سے مسائل کا شکار ہیں۔ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ اور بہت سے دیگر مسائل کی وجہ ان کا معاشی طور پر خود مختار نہ ہونا ہے۔

https://p.dw.com/p/3uNuS
Kaschmir Markt für Frauen in Rawalakot
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

پاکستان میں اب بہت سی خواتین تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہے، جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری یا کاروبار کر رہی ہوں۔ عالمی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2019 میں پاکستان کی لیبر فورس میں خواتین کا تناسب محض 21.67 فیصد تھا۔ پاکستان میں عام چلن یہی ہے کہ لڑکی کی تعلیم مکمل ہوتے ہی شادی کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کی زندگی کیسی ہو گی، وہ کیا کر سکے گی اور کیا نہیں، اس کا تعین اس کا شوہر اور اس کے گھر والے کرتے ہیں۔ زیادہ تر خاندان اپنی خواتین کو نوکری یا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

گھریلو خواتین اپنی آمدن بڑھانے کے لیے ایسے مواقع کی تلاش میں رہتی ہیں، جن کے لیے نہ انہیں گھر سے باہر جانا پڑے اور نہ ہی کوئی مشکل کام کرنا پڑے۔ ایسی خواتین کی بچت بھی کچھ خاص نہیں ہوتی۔ یہ خواتین گھر بیٹھے اپنی آمدن میں اضافہ کیسے کر سکتی ہیں اور اگر ان کے پاس کچھ رقم موجود ہے تو اس سے سرمایہ کاری کس طرح کر سکتی ہیں؟

میری صحافی دوست اریبہ شاہد پاکستان میں کاروبار اور معیشت سے متعلقہ معاملات پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ گھریلو خواتین کہاں سرمایہ کاری کر سکتی ہیں تو وہ کہنے لگیں کہ ہمیں پہلے تو گھریلو عورت کی حالت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو عورت اپنے بہت سے معاملات کے لیے گھر کے مردوں پر انحصار کرتی ہے۔ وہ خود ہی اپنے بارے میں فیصلے نہیں لے سکتیں۔ اس کے پاس سرمایہ بھی کم ہوتا ہے۔ اسے اپنی شادی پر اپنے والدین سے کچھ سونا ملا ہوتا ہے، اس کے علاوہ مختلف کمیٹیاں ڈال کر اس نے کچھ رقم جمع کی ہوتی ہے یا اگر گھر والے اچھے ہوں تو ان کی طرف سے اسے جائیداد میں حصہ بھی ملا ہوتا ہے۔

اریبہ کہتی ہیں کہ خواتین اپنے پاس موجود رقم سے پرائز بانڈ خرید سکتی ہیں، سرٹیفکیٹ خرید سکتی ہیں لیکن اس میں وقت کا عنصر دیکھنا بہت ضروری ہے۔ کئی سالوں بعد منافع تو ہو جاتا ہے لیکن ان سالوں میں افراطِ زر میں جو اضافہ ہوا ہوتا ہے، اسے دیکھتے ہوئے اس منافع کی حیثیت کچھ زیادہ نہیں رہ جاتی۔ سونے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔

DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تحریم عظیم، بلاگرتصویر: privat

اس کے علاوہ جو خواتین پیسوں کے معاملے میں خطرہ اٹھا سکتی ہوں، وہ اسٹاک مارکیٹ میں بھی اپنی رقم انویسٹ کر سکتی ہیں۔ اس کے لیے انہیں بنک اکاؤنٹ اور سٹاک مارکیٹ کی سمجھ بوجھ کی ضرورت ہو گی۔ اریبہ نے بتایا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے بہت سے مواقع موجود ہیں لیکن خواتین ان سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پاتیں۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک، زیادہ تر خواتین کے بنک اکاؤنٹ نہیں ہوتے اور جن کے ہوتے ہیں وہ ضرورت پڑنے پر بنک نہیں جا پاتیں۔ مجبوراً وہ اکاؤنٹ ہی ختم کر دیتی ہیں یا اس کی ملکیت اپنے کس مرد رشتے دار کو سونپ دیتی ہیں۔

دوسری وجہ خواتین کا مالی معاملات کا زیادہ علم نہ ہونا ہے۔ پاکستان میں کاروبار، اکاؤنٹنگ اور کامرس جیسے مضامین کو مردوں کے مضامین سمجھا جاتا ہے۔ خواتین کی بہت کم تعداد ایسے مضامین پڑھتی ہے۔ اس کے علاوہ، خواتین کے گروپس میں ان موضوعات پر بات بھی نہیں ہوتی جبکہ مردوں کی گفتگو پیسے کے گرد ہی گھومتی ہے۔ بہت سی خواتین غیر ملکی کرنسی اور کرپٹو کرنسی کی صورت میں بھی اپنی رقم انویسٹ کرتی ہیں لیکن اس کے لیے انہیں خود سے اس بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہیے۔

میں نے اریبہ سے پوچھا کہ آیا پاکستان میں کوئی ایسا اخبار، میگزین، ویب سائٹ یا سوشل میڈیا گروپ ہے، جہاں خواتین کو اس حوالے سے آسان الفاظ میں معلومات دی جا رہی ہوں تو اریبہ نے بتایا کہ بدقسمتی سے ایسا کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے۔ صحافت میں بھی بہت کم خواتین ہیں، جو ایسی خبروں کو کور کرتی ہیں۔ مرد عورتوں کے مسائل کو ویسے نہیں سمجھ سکتے، جس طرح ایک عورت سمجھ سکتی ہے۔ اس لیے وہ ذاتی فنانس اور انویسٹمنٹ پر ایک عورت کے زاویے سے خبر نہیں بنا پاتے۔

میمونہ ستار لاہور میں مقیم ایک کاروباری خاتون ہیں۔ میمونہ کہتی ہیں کہ یہ تمام طریقے اچھے ہیں لیکن ان سے منافع کمانے کے لیے بہت انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس انتظار کے بعد، جو منافع حاصل ہوتا ہے وہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ میمونہ خواتین سے کہتی ہیں کہ وہ کاروبار کریں، چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی کریں۔ وہ اپنی مثال دیتی ہیں کہ انہوں نے محض اڑھائی لاکھ روپے کی رقم سے لاہور کے ایک رہائشی علاقے میں ایک ریستوران شروع کیا۔ پہلے پہل وہاں صرف بار بی کیو ملتا تھا، آہستہ آہستہ انہوں نے دیگر اشیاء کا بھی اضافہ کر لیا اور آج وہ اپنے اس چھوٹے سے ریستوران سے روزانہ پندرہ سے بیس ہزار روپے کما رہی ہیں۔

میمونہ کہتی ہیں کہ کاروبار کرنے کے لیے سرمایے سے زیادہ ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی خاتون اتنا بھی نہیں کر سکتی تو کوئی زمین خرید لے، اس کی قیمت دنوں میں بڑھتی ہے۔ بس جو بھی کرے اس کے لیے تحقیق خود کرے یا کسی مستند شخص سے معلومات حاصل کرے، پاکستان میں دھوکا ہوتے بھی دیر نہیں لگتی۔