1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے کمزورترین طبقے نظر انداز، انسانی حقوق کمیشن

بینش جاوید
30 اپریل 2020

پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق پاکستان میں سماجی اور معاشی امتیاز نے ملک کے کمزور ترین طبقوں کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں نہ وہ حکمرانوں کو نظر آ رہے ہیں اور نہ ہی ان کی آواز سنی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3bbuR
تصویر: Amina Janjua

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے 2019ء میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  اپنے وعدوں کے برخلاف پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملک سے مالی بدعنوانیوں کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہی اور اس جماعت کو طاقتور کاروباری شخصیات اور سیاست دانوں کے ساتھ سمجھوتے کرنے پڑے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ملک میں عدلیہ کے نظام، قانون پر عمل درآمد، جبری گمشدگیوں کو مجرمانہ سرگرمی قرار دینے، خواتین کی حالت زار بہتر کرنے، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے خاتمے، اقلیتوں کے حقوق اور انتہائی پسماندہ اور غریب طبقے کی فلاح جیسے اہم معاملات پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ انسانی حقوق کے اہم معاملات سے متعلق ایچ آر سی پی کی آراء مندرجہ ذیل ہیں۔

سوشل میڈیا پر پابندیاں

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 2019ء کو ایک ایسے سال کے طور پر یاد کیا جائے گا جب سیاسی اختلاف رائے کو مختلف طریقوں سے دبانے کی کوشش کی گئی، پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر پابندیاں عائد کی گئیں، ڈیجیٹل نگرانی بڑھائی گئی۔  اسی موضوع سے متعلق  پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیم "بولو بھی" سے وابستہ اسامہ خلجی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ 2019ء میں پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئی۔ اس سال "سائبر کرائم قانون 2016ء" کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی آوازوں کو دبایا گیا۔ اور دوسری جانب اس قانون کو آن لائن ہراسگی کے شکار افراد کو ریلیف فراہم کرنے لیے بمشکل استعمال کیا گیا۔ اسامہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کئی مواقع پر انٹرنیٹ کو بند کیا گیا۔ سوشل میڈیا سے متعلق اسامہ کا کہنا تھا کہ ٹرولز کے ذریعے حکومت مخالف افراد کے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست مہم چلائی گئی۔اسی حوالے سے گزشتہ برس فیس بک نے پاکستانی فوج اور حکومت کے کئی فرضی اکاؤنٹ افشا بھی کیے۔

آزادی صحافت

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کو صحافتی آزادیوں کی سلبی کے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ بڑی تعداد میں صحافیوں نے بتایا ہے کہ ریاستی پالیسیوں پر تنقید کا کام اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پابندیوں نے ذرائع ابلاغ پر دیدہ و دانستہ مالیاتی دباؤ نے آزادی صحافت کی عالمی فہرست میں پاکستان کو اور زيادہ نیچے گرا دیا ہے ۔ پاکستانی صحافی اعزاز سید نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ پاکستان میں صحافت پر پابندیوں کی شدت 2014ء سے  بڑھی اور ہر سال اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو سے تین سالوں سے ہم نے دیکھا کہ ان صحافیوں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا جنہوں نے سوشل میڈیا کو اپنی رائے کے اظہار کے لیے استعمال کیا۔''

جبری گمشدگیاں
رپورٹ کے مطابق دسمبر 2019ء کے اختتام پر پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے 2,141 کیسز عدالت میں زیر سماعت تھے اور جن کے فیصلوں کا انتظار تھا۔ جبری گمشدگیوں کے سب سے زیادہ کیسز بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہوۓ۔ بہت سے ایسے کیسز بھی ہیں جو خوف کے باعث اہل خانہ نے پولیس کو درج نہیں کرائے۔ رپورٹ کے مطابق  یہ انتہائی ضروری ہے کہ حکومت جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا اپنا عہد پورا کرے۔ رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ  فعال حراستی مراکز کو کسی بھی طرح سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

خواتین کے حقوق

ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس خواتین پر تشدد کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ میں 'ویمن ، پیس اور سکیورٹی انڈیکس' کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2019ء میں خواتین کے لیے غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل  167 ممالک میں پاکستان 164 پوزیشن پر رہا تھا۔  ملک بھر میں 326 خواتین اور 162 مردوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا۔ 2018ء سے 2019ء تک ملک بھر سے 629 خواتین اور بچیوں کی زبردستی شادی کرا نے کے بعد انہيں چین بھیجا گیا تھا۔

اقلیتوں کے حقوق

ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق  گزشتہ سال مذہبی اقلیتیں عقیدے کی آزادی سے محروم رہیں۔ کئی اقلیتی برادریوں کے لیے یہ زیادتی اُن کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی، نوجوان عورتوں کے مذہب کی جبری تبدیلی، اور روزگار کے حصول میں مسلسل امتیازی سلوک کی صورت میں سامنے آئی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنے کمزورترین شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے: بلوچستان کی کانوں میں مشقّت کرنے والے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، جبکہ چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی زيادتی، اُن کے قتل اورلاشیں پھینکے جانے کی اطلاعات خوفناک حد تک معمول کا حصّہ بن گئی ہیں۔ عورتوں کو 'غیرت' کی بھینٹ چڑھانے کی روایت جاری رہی۔ ملک کے انتہائی پرہُجوم جیلوں میں قیدیوں کو غیرانسانی حالات میں رکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ریاست ان کی حفاظت نہیں کر پا رہی جن کے تحفظ کی اس پر ذمہ داری عائد ہے۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں غربت کے خاتمے کے لیے جاری حکومتی "احساس" پروگرام کا اعتراف کیا لیکن یہ بھی کہا کہ بری اقتصادی کارکردگی کے باعث ضروری اشیا کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا جس سے ملک کے غریب طبقے کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

قبائلی علاقوں میں صحافیوں کو درپیش مشکلات