1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں کمی چاہتے ہیں، اعلیٰ بھارتی حکام

مقبول ملک
14 اکتوبر 2016

دو اعلیٰ بھارتی حکومتی اہلکاروں کے بقول نئی دہلی ملکی معیشت کی ترقی پر توجہ دینے کا متمنی اور پاکستان کے ساتھ کشمیر میں کنٹرول لائن پر متعدد واقعات کے بعد پائی جانے والی موجودہ کشیدگی میں کمی کا خواہاں ہے۔

https://p.dw.com/p/2REuA
Grenze zwischen Indien und Kaschmir Soldaten
بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں کنٹرول لائن پر گشت کرتے بھارتی فوجیتصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Anand

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے نیوز ایجنسی روئٹرز کی جمعہ 14 اکتوبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان بھارتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ نئی دہلی ’کشمیر میں کنٹرول لائن کے پار عسکریت پسندوں کے خلاف کامیاب فوجی کارروائی‘ کے بعد اپنے جنوبی ایشیائی ہمسایہ ملک اور حریف ایٹمی طاقت پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو محدود کرنا چاہتا ہے۔

روئٹرز نے لکھا ہے کہ ان دونوں اعلیٰ بھارتی حکام نے ان وسیع تر خدشات کو بھی دور کرنے کی کوشش کی، جو پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر میں کنٹرول لائن پر حالیہ واقعات اور فائرنگ کے تبادلے کے بعد سے کسی ’ممکنہ اور بڑے تصادم‘ کے حوالے سے پائے جاتے ہیں۔

اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ باتیں جن دو اعلیٰ بھارتی شخصیات نے کہیں، وہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی ان کوششوں میں بھی عملی طور پر شامل ہیں، جن کے تحت مودی پاکستان سے متعلق ایک نئی اور زیادہ ٹھوس حکمت عملی کے خواہش مند ہیں۔

ان میں سے ایک بھارتی حکومتی اہلکار نے کہا کہ نئی دہلی اس وقت بھی اپنے ہاں زیادہ تیز رفتار اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، اور پاکستان کے ساتھ کوئی ایسا تصادم نہیں چاہتا جو اس کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بنے۔

Indien Protesten in Kashmir
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی ہفتوں سے خونریز مطاہرے جاری ہیںتصویر: picture-alliance/Pacific Press/F. Khan

’جنگ لڑنا ہی نہیں پڑے گی‘

اس حکومتی اہلکار کے بقول، ’’ہم اپنے لیے جامع قومی طاقت کو ترقی دینا چاہتے ہیں، اقتصادی اور عسکری سے لے کر سفارتی طاقت تک۔ ہمیں وقت درکار ہے۔ اگر ہم اسی راستے پر آگے بڑھتے رہے، تو طاقت کے لحاظ سے 2025ء تک ہمارا اور پاکستان کا فرق اتنا زیادہ ہو جائے گا کہ تب کوئی جنگ لڑنا ضروری ہی نہیں رہے گا۔‘‘

روئٹرز نے ان دونوں بھارتی اہلکاروں کے اس موقف کا پس منظر واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مودی حکومت نے بھارت کی عسکری احتراز کی روایتی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے گزشتہ ماہ یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کشمیر میں کنٹرول لائن کے پار اس متنازعہ خطے کے پاکستان کے زیر انتظام حصے میں اپنی اسپیشل فورسز بھیجی تھیں، جنہوں نے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا تھا۔ نئی دہلی کے بقول ان مبینہ ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ میں عسکریت پسندوں کی ایک غیر واضح تعداد کو ہلاک کر دیا گیا تھا اور یہ کارروائی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک آرمی بیس پر مبینہ طور پر پاکستان سے آئے عسکریت پسندوں کے ایک حملے کے جواب میں کی گئی تھی۔

Indien Protesten in Kashmir
ان مظاہروں میں اب تک کم از کم 80 کشمیری ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/Pacific Press/U. Asif

پاکستان کی طرف سے تردید

دوسری طرف پاکستان کا موقف یہ ہے کہ اس کا کشمیر میں اُڑی کے مقام پر بھارتی آرمی بیس پر حملے سے کوئی تعلق نہیں اور بھارتی فورسز نہ تو کنٹرول لائن پار کر کے پاکستان کے زیر انتظام کسی علاقے میں داخل ہوئیں اور نہ ہی وہاں کوئی ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ کی گئیں۔

ساتھ ہی پاکستان نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کی کوئی کوشش کی، تو اس کا یقینی طور پر بھرپور جواب دیا جائے گا۔

اسی دوران پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جمعے کے روز کہا گیا کہ بھارت کنٹرول لائن کے حوالے سے جو دعوے کر رہا ہے، ان کا اصل مقصد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی ہفتوں سے جاری کشمیری مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے خونریز کریک ڈاؤن سے توجہ ہٹانا ہے۔

Indien Kaschmir Indische Paramilitärs
بدامنی کی موجودہ لہر میں پانچ ہزار سے زائد بھارتی سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin

چھ سال کے دوران شدید ترین بدامنی

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جو مظاہرے جاری ہیں، وہ وادی میں گزشتہ چھ برسوں کے دوران نظر آنے والی بدامنی اور خونریزی کی سب سے بڑی لہرکی وجہ بنے ہیں۔ اس دوران کم از کم 80 عام کشمیری شہری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ مظاہرین کے ساتھ تصادم میں کم از کم دو بھارتی پولیس افسران بھی مارے جا چکے ہیں جبکہ زخمی سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد بھی 5000 سے زیادہ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں