1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے زير انتظام کشمیر کی میڈیکل ڈگریاں منظور نہیں

13 اگست 2020

بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے میڈیکل کالجز میں تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کی اسناد کو بھارتی حکومت منطور نہیں کرے گی اور اس طرح وہاں تعلیم پانے والے بھارتی کشمیری ڈاکٹر بھارت میں پریکٹس نہیں کر سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/3gtTK
Internetsperre in Kaschmir
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

محکمہ طب سے متعلق بھارتی ادارے 'دی میڈیکل کونسل آف انڈیا' (آئی ایم سی) نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے میڈیکل کالجز سے اسناد حاصل کرنے والے ڈاکٹروں پر بھارت میں پابندی عائد کرنے کے سلسلے میں ایک نیا سرکلر جاری کیا ہے۔ بھارتی حکومت نے اس کے لیے کسی تعلیمی معیار یا اصول و ضوابط کا حوالہ دینے کے بجائے یہ دلیل دی ہے کہ ’چونکہ ان علاقوں پر پاکستان کا غیر قانونی قبضہ ہے‘ اس لیے وہاں قائم ایسے ادارے غیر قانونی ہیں۔ 

آئی ایم سی کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گيا کہ ’تمام متعلقہ افراد کو مطلع کیا جاتا ہے کہ جموں و کشمیر اور لداخ کے تمام علاقے بھارت کا اٹوٹ حصہ ہیں اور پاکستان نےاس کے کچھ حصوں پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ ’’کشمیر اور لداخ کے جن علاقوں پر بھی پاکستان کا قبضہ ہے وہاں ایسے میڈیکل اداروں کو آئی ایم سی سے توثیق اور اجازت حاصل کرنا لازمی ہے، جب کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر یا لداخ کے علاقوں میں ایسے کسی میڈیکل کالج کو اجازت نہیں دی گئی ہے۔‘‘

اس پبلک نوٹس میں کہا گيا ہے کہ چونکہ ان علاقوں میں قائم ایسے میڈیکل اداروں کو اجازت ہی نہیں ہے اس لیے اس طرح کے اداروں سے تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کو بھارت میں کہیں بھی رجسٹریشن کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ 

بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی تھی تاہم بیرونی اداروں سے سند حاصل کرنے والوں کو بھارت میں رجسٹریشن کے لیے جس ٹیسٹ سےگزرنا ہوتا ہے اس میں انہیں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ طالبہ نے اس سلسلے میں ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور عدالت کے استفسار کے بعد حکومت نے یہ وضاحت نامہ جاری کیا ہے۔

کشمیر: بشیر احمد خان کو کس نے مارا؟

جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ نے وزارت خارجہ اور میڈیکل کونسل آف انڈیا سے کہا تھا کہ وہ ایسے علاقوں میں طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں سے متعلق اپنے موقف پر غور و فکر کرکے بتائے کہ کیا ایسے ڈاکٹروں کو پریکٹس کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں۔

 بھارتی میڈیا کی خبروں کے مطابق رواں برس فروری میں عمران خان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سولہ سو نوجوانوں کو اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا تھا اور بھارتی حکومت نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اس طرح کے اقدامات کا اعلان کیا ہے تاکہ کشمیری طلبہ کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تعلیم حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔

بھارت میں سکیورٹی ایجنسیز اس بات کا بھی الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ اس طرح کی اسکالر شپ کشمیر کے علحیدگی پسند رہنماؤں کی سفارشات پر دی جاتی ہیں اور ان کے کہنے پر طلبہ کو داخلے دیے جاتے ہیں جس کے لیے بسا اوقات بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علحیدگی پسند رہنما رشوت بھی طلب کرتے ہیں۔

لیکن بھارتی حکومت نے پاکستان کے دیگر علاقوں سے حاصل شدہ ڈگریوں پر پابند عائد نہیں کی۔ اس پبلک نوٹس کے مطابق اس میں صرف کشمیر اور لداخ کے علاقوں کا ذکر ہے جب کہ اگر کوئی شخص لاہور یا پھر کراچی میں ایسی ڈگریاں حاصل کرے تو اس پر ابھی تک کوئی پابندی نہیں ہے۔

بھارتی میڈیا میں اس طرح کی بھی خبریں آتی رہی ہیں کہ عمران خان کی حکومت نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے طلبہ کے لیے جس اسکالر شپ کا اعلان کیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے اگر اس کے تحت کشمیری طلبہ کراچی یا لاہور جیسی یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کر کے واپس آتے ہیں تو ان کا کیا ہوگا۔ بعض حلقوں کی جانب سے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گيا ہے تاہم اس سلسلے میں چونکہ ابھی کوئی قانون نہیں ہے اس لیے اس پر بھی غور و فکر کیا جا رہا ہے۔

کشمیر کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، پرویز امروز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں