1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مہاجر کیمپ کی عقیلہ بین الاقوامی ایوارڈ کے لیے نامزد

بینش جاوید22 فروری 2016

افغان مہاجرین کے کیمپ میں قائم عقیلہ آصفی کے اسکول سے اب تک 1000 افغان اور پاکستانی طالبات تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے اسکول سے پڑھی ہوئی طالبات آج ڈاکٹر، ٹیچرز اور سرکاری ملازمین کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HzoY
DW Postings 20 Local Heroes URDU

عقیلہ افغانستان میں ایک ٹیچر کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں۔ سن 1992 میں جب افغانستان ميں خانہ جنگی شروع ہوئی تو عقیلہ اپنے خاوند کے ساتھ محض چند ضروری اشياء ليے پاکستان میں میانوالی کے قریب کوٹ چندانہ کے مہاجر کیمپ میں آ کر آباد ہو گئیں۔ ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے عقیلہ نے بتایا کہ اس کیمپ میں آ کر انہیں احساس ہوا کہ یہاں افغان مہاجرین کی زندگی کتنی مشکل ہے۔ عقیلہ، جو خود ایک استانی تھیں، نے مشاہدہ کیا کہ افغان مہاجر کیمپ میں لڑکیوں کے لیے کوئی بھی اسکول نہیں ہے۔

عقیلہ بتاتی ہیں، ’’میں نے مختلف گھروں میں جا کر خواتین کو سمجھایا کہ وہ اپنی بچیوں کو بھی سکول بھیجیں لیکن پشتون روایات کے یہ افراد اپنی بچیوں کو کسی دوسرے گاؤں یا علاقے میں قائم اسکول میں نہیں بھیجنا چاہتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے ہی چھوٹے سے گھر میں بچیوں کو پڑھانا شروع کروں گی۔‘‘

عقیلہ نے اپنے گھر میں لڑکیوں کے لیے ایک اسکول قائم کر دیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ پہلے تو بہت ہی کم بچیوں نے اسکول آنا شروع کیا ۔ شروع میں ان بچیوں کو انہوں نے اسلامیات، گھر داری اور صفائی ستھرائی سکھانا شروع کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ اسکول جانے والی بچیاں زیادہ صاف ستھری اور سمجھدار ہو رہی ہیں تو انہوں نے بھی اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ بعد میں ان کو دیگر مضامین بھی پڑھانا شروع کر دیے گئے۔

Aqeela Asifi afghanischer Flüchtling in Pakistan
عقیلہ کی کاوشوں سے بچیوں کی کم عمر میں شادی کی فرسودہ روایات میں کمی آئی ہےتصویر: Anam Abbass

پاکستان ميں زیادہ تر افغان مہاجرین بہت ہی برے مالی حالات کا سامنا کر رہے تھے، اس لیے عقیلہ نے والدین سے اسکول فیس نہیں لی۔ اسکول قائم ہونے کے ابتدائی دنوں میں اسکول کی بچیوں نے زمین پر لکھ کر تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ کچھ عرصے بعد عقیلہ نے خود اپنے خرچے سے بچیوں کے لیے کاپیاں، پینسلیں اور دیگر اشیاء خریدیں۔ عقیلہ بتاتی ہیں، ’’اس علاقے میں دور دور تک لڑکیوں کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا۔ اس لیے ہمارے مہاجر کیمپ کے قریب ایک گاؤں سے پاکستانی بچیاں بھی میرے اسکول میں آنا شروع ہوگئیں۔‘‘

تقریبا چار برس بعد سن 1996 میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے عقیلہ کی حوصلہ افزائی کرنےکے لیے اس کے ہی گھر کو باقاعدہ ایک اسکول بنا دیا۔ اب تک عقیلہ کے اسکول سے 1080 سے زیادہ لڑکیاں تعلیم حاصل کر چکی ہیں۔ ان میں سے 125 بچیاں عقیلہ کے اسکول سے آٹھیوں تک تعلیم مکمل کر کے کالج کی تعلیم بھی مکمل کر چکی ہیں۔ عقیلہ نہایت فخر سے بتاتی ہیں، ’’میری ایک پاکستانی طالبا آج میانوالی میں ڈاکٹر ہے۔ وہ اس مہاجر کیمپ کے افراد کا مفت علاج کرتی ہے۔ میری چند طالبات کابل میں ٹیچر ہیں، میرے لیے یہ بہت ہی فخر کی بات ہے۔‘‘

گزشتہ برس عقیلہ کو تعلیم کے میدان میں ان کی کاوشوں کے اعتراف میں ’نینسن ریفیوجی ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ اس ایوارڈ کے ساتھ انہیں ایک لاکھ امریکی ڈالر کی رقم بھی ملی۔ اس رقم سے عقیلہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ساتھ مل کر اپنے اسکول میں نویں اور دسویں جماعتوں کے لیے کلاس رومز تعمیر کرا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اسکول میں ایک سائنس لیباريٹری، دو ٹائلٹس اور ایک کتب خانہ بھی تعمیر کرا رہی ہیں۔

Aqeela Asifi afghanischer Flüchtling in Pakistan
عقیلہ کو بین الاقوامی’گلوبل ٹیچر پرائز‘ کے لیے نامزد کیا گیا ہےتصویر: Anam Abbass

عقیلہ کی کاوشوں سے بچیوں کی کم عمر میں شادی کی فرسودہ روایات میں کمی آئی ہے اور تعلیم کی اہمیت کے بارے میں آگہی بھی پیدا ہوئی ہے۔ اس سال تعلیم کے میدان میں عقیلہ کی کاوشوں کے اعتراف میں انہیں بین الاقوامی’گلوبل ٹیچر پرائز‘ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ ان کا نام دنیا بھر سے 8000 نامزدگیوں میں سے پہلی 10 نامزدگیوں میں آ گیا ہے۔

عقیلہ کی اس کامیابی کے بارے میں پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ اندریکا راٹ واٹے نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’عقیلہ نے ایک درخت کے نیچے اسکول کا آغاز کیا تھا، یہ ایک غیر معمولی خاتون ہیں جنہوں نے بغیر کسی غرض کے بے پناہ زندگیوں کو ایک روشن مستقبل دیا۔ مجھے امید ہے کہ یہ ’گلوبل ٹیچر پرائز‘ حاصل کر پائیں گی اور تعلیم کے میدان میں اپنی کوششیں جاری رکھیں گی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں