1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی معاونت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور

17 دسمبر 2018

طالبان نے مطلع کيا ہے کہ افغانستان ميں قيام امن کے ليے ان کی متحدہ عرب امارات ميں آج بروز پير امريکی حکام کے ساتھ ملاقات ہو رہی ہے۔ اس ملاقات ميں سعودی عرب، امارات اور پاکستان کے نمائندگان بھی شريک ہيں۔

https://p.dw.com/p/3AEAw
Afghanistan  - Afghanische Soldaten in Kundus
تصویر: picture-alliance/dpa/Xinhua/A. Kakar

افغانستان ميں سترہ برس سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کے ليے امريکی اہلکاروں اور افغان طالبان کے مذاکرات کا دوسرا دور پير سترہ دسمبر کو متحدہ عرب امارات ميں ہو رہی ہے۔ مذاکرات کے اس تازہ دور کی تصديق طالبان کے ترجمان ذبيع اللہ مجاہد نے کی ہے تاہم انہوں نے اس بارے ميں مزيد تفصيلات نہيں بتائيں۔

افغانستان کی سرکاری بختار نيوز ايجنسی کے ڈائريکٹر خليل مناوی نے البتہ اپنے ايک ٹوئٹر پيغام ميں لکھا ہے کہ اس ملاقات ميں طالبان اور امريکيوں کے علاوہ سعودی عرب، امارات اور پاکستان کے نمائندگان بھی شريک ہيں۔ انہوں نے يہ بھی لکھا کہ ’پاکستان کی جانب سے منعقد کردہ‘ طالبان اور امريکيوں کی اس ملاقات سے ايک روز قبل ديگر ممالک کے نمائندگان نے بھی ايک ملاقات کی تھی۔

يہ امر اہم ہے کہ افغان حکومت کے نمائندے آج  اس ملاقات ميں شريک نہيں ہوں گے گو کہ وہ متحدہ عرب امارات ميں موجود ضرور ہيں۔ طالبان، افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات اب تک مسترد کرتے آئے ہيں۔ ان کا موقف ہے کہ کابل حکومت امريکا کی ’کٹھ پتلی‘ ہے۔

امريکی محکمہ خارجہ نے مذاکرات کے اس دوسرے دور کی نہ تو تصديق کی ہے اور نہ ہی اس بات کی ترديد کی ان کے نمائندے اس ملاقات ميں شريک ہيں۔ افغانستان کے ليے امريکا کے خصوصی مندوب زلمے خليل زاد يہ کہہ چکے ہيں کہ ان کی تمام افغانوں کے ساتھ کئی ملاقاتيں ہو چکی ہيں۔

واشنگٹن حکومت نے سن 2001 سے لے کر اب تک افغان جنگ پر لگ بھگ ايک ٹريلين ڈالر خرچ کيے ہيں اور يہ امريکی تاريخ کی سب سے طويل جنگ ثابت ہوئی ہے۔

طالبان کی جانب سے پچھلے ماہ جاری کردہ ايک بيان کے مطابق ان کی زلمے خليل زاد کے ساتھ قطر ميں تين دن تک بات چيت ہوئی۔ بعد ازاں خليل زاد نے کابل ميں افغان صدر اشرف غنی پر زور ڈالا کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چيت کے ليے ايک ٹيم تشکيل ديں تاکہ افغانستان کے مستقبل کے ليے ايک روڈ ميپ پر اتفاق ممکن ہو۔ خليل زاد کی کوشش ہے کہ افغانستان ميں آئندہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل  ايسے کسی سمجھوتے تک پہنچا جا سکے۔

يہ امر اہم ہے کہ خليل زاد نے اس ضمن ميں اسی ماہ اسلام آباد کا دورہ بھی کيا تھا۔ پاکستانی وزير اعظم عمران خان نے بعد ازاں بتايا کہ اپنے دورے ميں خليل زاد نے ان سے طالبان کو مذاکرات کی ميز پر لانے ميں مدد فراہم کرنے کا کہا تھا۔

ع س / ع ا، نيوز ايجنسياں