1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: آرمی چیف کی تقرری دنیا کے لیے اہم کیوں ہے؟

17 نومبر 2022

پاکستان کی جوہری ہتھیاروں سے لیس فوج کی قیادت اگلے ماہ سے نئے سربراہ کے ہاتھ میں ہو گی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور چیف آف آرمی سٹاف مدت ملازمت ختم رواں ماہ ختم ہو جائے گی۔

https://p.dw.com/p/4JfsG
Belgien | Besuch General Qamar Javed Bajwa
تصویر: Embassy of Pakistan

پاکستان بظاہر ایک نئے بحران کے دھانے پر کھڑا ہے اور فوج اس ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے پر پاکستان کو نیا فوجی سربراہ تعینات کرنا ہے۔ اس تقرری کا پاکستان کی ناتواں جمہوریت کے مستقبل پر اہم اثر پڑ سکتا ہے بلکہ پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اجازت ملے گی یا نہیں، اس بات کا انحصار بھی اسی تقرری پر ہے۔

قیام پاکستان کے 75 برسوں کے دوران فوج نے تین بار اقتدار پر قبضہ کیا اور تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک براہ راست اس اسلامی جمہوریہ پر حکمرانی کی ہے۔ اس دوران بھارت کے ساتھ تین جنگیں بھی لڑی گئیں۔

پاکستان میں جب سویلین حکومت بھی اقتدار میں آتی ہے تب بھی فوجی قیادت ہی سکیورٹی معاملات اور خارجہ امور پر اثر و رسوخ برقرار رکھتے ہیں۔ یعنی نیا فوجی سربراہ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ بھارت میں ہندو قوم پرست حکومت اور افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کی حکومت کے ساتھ کیسے تعلقات رکھے جائیں گے اور آیا پاکستان کا جھکاؤ چین کی جانب زیادہ ہو گا یا امریکہ کی جانب۔

جنرل باجوہ کی میراث

سن 2016 میں آرمی چیف مقرر ہونے والے جنرل باجوہ نے چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران اسلام آباد بیجنگ کے قریب چلا گیا تو جنرل باجوہ نے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے بھی کام کیا۔ انہوں نے گزشتہ برس افغانستان سے مغربی افواج کے انخلا کے دوران امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا۔

جنرل باجوہ نے ملکی معاشی معاملات میں بھی عملی کردار ادا کیا، ساتھ میں ایسے فیصلے کرنے میں بھی دلچسپی لی کہ ملکی بجٹ کا کتنا حصہ فوج کو جائے گا۔

انہوں نے بیجنگ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے اہم دورے کیے اور پاکستان کے لیے مالی امداد حاصل کرنے میں مدد کی۔ جنرل باجوہ ہی نے واشنگٹن سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ کرنے میں مدد حاصل کرنے کے لیے بھی لابنگ کی۔

یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان کے سرکردہ صنعت کاروں کو آرمی ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والے ایک اجلاس میں طلب کیا تاکہ انہیں مزید ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔

ان کے دور ہی میں سن 2019 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان فضائی جھڑپیں ہوئیں۔ تاہم وہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے عوامی سطح پر حمایت کرتے رہے اور کشیدگی میں اضافے سے گریز کرتے بھی دکھائی دیے۔ مثال کے طور پر رواں برس غلطی سے ایک بھارتی میزائل پاکستان کی حدود میں گر کر تباہ ہو گیا تھا، جس کے بعد پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔

سن 2021 کے اوائل میں جنرل باجوہ نے کشمیر کے متنازعہ علاقے میں لائن آف کنٹرول پر دہلی کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کی بحالی کی منظوری دی تھی۔

داخلی سطح پر ان پر سیاسی مداخلت کا الزام عائد کیا گیا۔ سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے سن 2018 میں عمران خان کو وزیر اعظم بننے میں مدد کی تھی۔ اس سال کے اوائل میں عمران خان نے جنرل باجوہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان کی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

فوجی سربراہ کا تقرر کیسے کیا جاتا ہے؟

رواں ماہ ریٹائر ہونے والے آرمی چیف ملکی وزیر اعظم کو سینیئر ترین جرنیلوں کی ایک فہرست دیں گے، جس کے بعد وزیر اعظم ان میں سے کسی کا انتخاب کریں گے۔ پاکستانی تاریخ میں ایسا کبھی شاذ و نادر ہی دیکھا گیا کہ چار سینیئر ترین فوجی افسران میں سے کسی کو نیا آرمی چیف بنایا گیا ہو۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال کے لیے ہوتی ہے لیکن اکثر انہیں توسیع بھی دے دی جاتی ہے، جیسا کہ جنرل باجوہ کو بھی توسیع دی گئی تھی۔

فوج کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کے باوجود کہ جنرل باجوہ اس بار مدت ملازمت ختم ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے، یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے انہیں ایک مرتبہ پھر سے توسیع دی جا سکتی ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی جگہ لینے والے ممکنہ فوجی افسروں میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، ساحر شمشاد، اظہر عباس اور نعمان محمود کے نام لیے جا رہے ہیں۔

یہ تقرری عالمی سطح پر کیوں اہمیت رکھتی ہے؟

پاکستان کے آرمی چیف اپنی مشرقی سرحد پر جوہری ہتھیاروں سے لیس حریف ملک بھارت کے ساتھ تنازعات کے خطرات سے نمٹنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ ممکنہ عدم استحکام اور کشیدگی سے نمٹنے میں بھی ان کا کردار اہم ہوتا ہے۔

پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع اور خطے کی غیر مستحکم صورت حال کے باعث واشنگٹن اور بیجنگ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کی حکومتیں پاکستانی فوج کے ساتھ براہ راست تعلقات رکھتی ہیں۔

پاکستان میں قریب تین دہائیوں تک فوج براہ راست اقتدار میں رہی
پاکستان میں قریب تین دہائیوں تک فوج براہ راست اقتدار میں رہیتصویر: B.K. Bangash/dpa/picture alliance

کئی ممالک نے وقتاً فوقتاً پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت پر سوال اٹھایا ہے۔ پاکستان کے پاس ایک طرف جوہری ہتھیار اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ہیں تو دوسری جانب اسے بار بار آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینا پڑتا ہے اور ملک میں مغرب اور بھارت مخالف عسکریت پسند گروہ بھی موجود ہیں۔

علاوہ ازیں پشتون اور بلوچ علاقوں میں شورش کی وجہ سے داخلی سلامتی بھی ایک مستقل مسئلہ رہا ہے۔

تمام تر خطرات کے باوجود پاکستانی حکومت اور فوج نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے کمانڈ اور کنٹرول اور حفاظت کے بارے میں غیر ملکی خدشات کو مسترد کر دیا ہے۔

یہ تقرری داخلی سطح پر کیوں اہم ہے؟

پاکستانی فوج پر طویل عرصے سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنا غلبہ برقرار رکھنے کے لیے جمہوری عمل میں مداخلت کرتی ہے۔ پاکستان کے 30 میں سے 19 وزرائے اعظم جمہوری طور پر منتخب ہوئے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔

حالیہ عرصے کے دوران سیاست میں اپنی ماضی کی مداخلت کا اعتراف کرنے کے بعد فوج نے کہا ہے کہ وہ اب مزید مداخلت نہیں کرے گی۔ کیا نئے سربراہ بھی اس عزم پر قائم رہیں گے یا نہیں، یہ بات پاکستان کے جمہوری ارتقا کے حوالی سے کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔

دریں اثنا پاکستان ایک اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف کو قبل از وقت انتخابات میں مجبور کرنے کے لیے ملک گیر تحریک شروع کر رکھی ہے۔

معاشی بحران اور تاریخی سیلابوں سے نبرد آزما ملک میں نئے آنے والے آرمی چیف ممکنہ طور پر سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ش ح/ک م (روئٹرز)