1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان نے کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی کی اجازت دے دی

جاوید اختر، نئی دہلی
16 جولائی 2020

 پاکستان میں قید مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے پاس سزائے موت پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے لیے اب جب کہ صرف پانچ دن رہ گئے ہیں اسلام آباد نے بھارت کو یادیو تک قونصلر رسائی کی آج ہی اجازت دے دی۔

https://p.dw.com/p/3fPHu
Pakistan angeblicher indische Spion zum Tode verurteilt
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

میڈیا رپورٹوں کے مطابق پاکستان نے بھارت کو کلبھوشن یادیو تک دوسری مرتبہ قونصلر رسائی کی اجازت دے دی اور بھارتی سفارت کار آج شام کلبھوشن یادیو سے ملاقات کریں گے۔ بھارتی حکام نے پہلی مرتبہ ستمبر 2019میں یادیو سے ملاقات کی تھی۔

یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب بھارت نے یادیو تک قونصلر رسائی کے لیے پاکستان کو از سر نو درخواست دیتے ہوئے اسلام آباد سے کہا تھا کہ اسے کلبھوشن یادیو تک ’بلا روک ٹوک اور کسی پابندی کے بغیر‘ قونصلر رسائی کی اجازت دی جائے۔ خیال رہے کہ پاکستان نے یادیو کو سزائے موت پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے لیے آخری تاریخ 20جولائی مقرر کی ہے۔

پاکستانی دفترخارجہ نے گزشتہ ہفتے دعوی کیا تھا کہ بھارتی بحریہ کے زیر حراست افسر اور مبینہ جاسوس کلبھوشن یادیو نے اپنی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس کے بجائے اپنی زیر التوا رحم کی اپیل پرجواب کا انتظار کررہے ہیں۔ بھارت نے تاہم پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کرنے کے لیے کلبھوشن یادیو کو ڈرایا دھمکایا گیا۔

نئی دہلی میں وزرات خارجہ کے ذرائع کے مطابق گوکہ پاکستان نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ وہ یادیو کو دوسری مرتبہ قونصلر رسائی کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے تاہم بھارت چاہتا ہے کہ یہ قونصلر رسائی 'بلا روک ٹوک اور کسی پابندی کے بغیر‘  ہونی چاہیے اوراس طرح کی پابندیاں عاید نہیں کی جانی چاہیے جیسا کہ گزشتہ برس ستمبر میں پہلی قونصلر رسائی کے دوران عائد کی گئی تھیں۔

Pakistan Kulbhushan Jadhav
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Pakistan Foreign Ministry

بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ستمبر میں جب پاکستان نے یادیو کو قونصلر رسائی دی تھی اس وقت اتنی ساری رکاوٹیں کھڑی کردی گئی تھیں کہ یادیو اپنی بات نہیں کہہ سکے۔ پاکستان ان پر ذہنی دباو ڈال کر اپنی مرضی کے مطابق ان سے باتیں کرواتا رہا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط کر کہا کہ 'بھارت پچھلے ایک برس سے یادیو کے ساتھ بلا روک ٹوٹ اور کسی پابندی کے بغیر قونصلر رسائی کی درخواست کر رہا ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے کے مطابق 'بلا روک ٹوٹ اور کسی پابندی کے بغیر‘ رسائی کی اجازت دینی چاہیے۔ کیوں کہ یادو کے معاملے میں آئی سی جے نے  'آزادانہ اور منصفانہ مقدمہ‘  چلانے کا فیصلہ سنایا تھا۔

بھارت کا کہنا ہے کہ بلاروک ٹوک قونصلر رسائی میں انگلش زبان میں بات کرنے پر زور نہیں دینا بھی شامل ہے۔ بھارت یہ بھی چاہتا ہے کہ یادیو کے ساتھ بات چیت کے دوران کم از کم دو افسران کو ملنے کی اجازت دی جائے۔ اس دوران کوئی پاکستانی افسر کمرے میں موجود نہ رہے اور اس ملاقات کی کوئی آڈیو ویزوول ریکارڈنگ نہ کی جائے۔

بھارتی حکام کا خیال ہے کہ پاکستان کی شرطوں پر یادیو تک قونصلر رسائی کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ دکھاوا ہے تاکہ پاکستان  آئی سی جے کو یہ باور کراسکے کہ اس نے بین الاقوامی عالمی عدالت انصاف کے احکامات پر عمل آوری کی ہے۔

 پاکستان یہ دعو ی کرتا ہے کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کے حاضر سروس آفسر ہیں جنھیں سنہ 2016 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستان ایک عرصے سے بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند عناصر کی پشت پناہی کرنے کا الزام بھارت پر عائد کرتا رہا ہے۔ تاہم بھارت نے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا تھا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ سے کب اور کس طرح ریٹائر ہوئے، کیونکہ پکڑے جانے کے وقت کلبھوشن کی عمر 47 برس تھی۔ علاوہ ازیں بھارت کو اس بات کی وضاحت دینے کی ضرورت تھی کہ کلبھوشن یادیو کے پاس جعلی شناخت کے ساتھ اصلی پاسپورٹ کیسے آیا، جس کو انہوں نے 17 مرتبہ بھارت آنے جانے کے لیے استعمال بھی کیا اور اس میں ان کا نام حسین مبارک پٹیل درج تھا۔

بھارت ان تمام الزامات کی تردید کرتا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ کلبھوشن ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں اور وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں ایران گئے تھے اور انہیں پاکستان۔ ایران سرحد پر اغوا کرلیا گیا تھا۔

پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے اپریل 2017 میں کلبھوشن کو جاسوسی، تخریب کاری اور دہشت گردی کے الزامات میں موت کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف بھارت نے مئی 2017 میں عالمی عدالت انصاف کا دورازہ کھٹکھٹایا تھا اور استدعا کی تھی کہ کلبھوشن کی سزا معطل کرکے ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔عالمی عدالت نے بھارت کی یہ اپیل مسترد کر دی تھی تاہم پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ملزم کو قونصلر رسائی دے اور ان کی سزائے موت پر نظرِ ثانی کرے۔

بھارت کا کہنا ہے ”بین الاقوامی عدالت انصاف یہ پہلے ہی تسلیم کرچکا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی میں شامل ہے۔  اوربھارت یادیو کو محفوظ رکھنے اور وطن واپس لانے کے لیے ہر ممکنہ اقدام اور تمام مناسب متبادل پر غور کرے گا۔"

عالمی عدالت انصاف کا کلبھوشن یادیو مقدمے فیصلہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید