1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان نے سرحد پر اضافی فوج تعینات نہیں کی، بھارتی فوج

صلاح الدین زین سرینگر کشمیر
6 جولائی 2020

بھارتی فوج نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کے سبب پاکستان نے بھی لائن آف کنٹرول پر فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3eqmd
Pakistan Soldaten in Tatta Pani
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

بھارتی فوج نے میڈیا کی ان خبروں کی تردید کی ہے کہ لداخ میں بھارت چین کی کشیدگی کے باعث پاکستان نے بھی سرحد پر فوجیوں کی تعیناتی میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے شہر سری نگر میں 15ویں کور کمانڈر کے لیفٹنٹ جنرل بی ایس راجیو کا کہنا ہے کہ فوج کو ایسا نہیں لگتا کہ بھارت چین کشیدگی کے تناظر میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان کی جانب سے مستقبل قریب میں  فوج کی بڑی تعداد میں تعیناتی کا کوئی اشارہ ملتا ہو۔

بھارتی میڈیا میں اس طرح کی خبریں بڑے زور شور سے آتی رہی ہیں کہ لداخ میں بھارت چین فوج کے درمیان موجودہ کشدیدگی کے ماحول میں پاکستان نے بھی اپنے زیر انتظام کشمیر میں فوج کو بڑی تعداد میں تعینات کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے بھارتی میڈیا میں یہ بحث بھی ہوتی رہی ہے کہ چین کے ساتھ جنگ کی صورت میں اگر پاکستان نے بھی ایل او سی پر ایک نیا محاذ کھول دیا تو جنگ کی صورت کیا ہوگی؟ اور کیا بھارت اس کے لیے تیار ہے؟

ایل او سی پر بھارتی فوج کی کمانڈ اس وقت بی ایس راجیو کی نگرانی میں ہے۔ انہوں نے بھارتی میڈیا سے بات چيت میں کہا کہ یہ درست ہے کہ علاقے میں پاکستان کی فوج نے دفاعی نکتہ نظر سے "کچھ ریزرو فارمیشن" کو آگے ضرور کیا ہے۔ لیکن "جو علاقے میرے زیر نگرانی ہیں ان میں، میں نے ابھی تک پاکستان کی جانب سے بظاہر اضافی تعیناتی یا پھر کوئی بڑی نقل و حرکت نہیں دیکھی ہے۔ لیکن پاکستان نے اپنی دفاعی چوکیوں کو اپگریڈ ضرور کیا ہے، جو وہ کشیدگی کے دوران کرتے رہتے ہیں۔ تاہم ہم کسی بھی کارروائی کے لیے تیار ہیں۔"

Pakistan Kaschmir Grenze zu Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے موجودہ حالات کے پیش نظر کچھ نئے دستوں کو آگے بڑھایا ہے جس کا مقصد دفاعی پوسٹس کو بہتر کرنا ہے۔ "اس مرحلے پر میں یہ نہیں سوچتا کہ اس میں پاکستان کی کوئی اور نیت ہوسکتی ہے۔"

بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے بھارتی میڈیا کے بعض حلقوں نے پاکستان ن پر نہ صرف فوج کے اضافے کا الزام عائد کیا تھا بلکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے چین کو اپنے فضائی اڈوں  کے استعمال کی اجازت دی ہے جہاں چین نے اپنی فضائیہ کو تعینات کر رکھا ہے۔ 

پاکستانی فوج نے گزشتہ ہفتے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے ایسی خبروں کو بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا تھا۔ فوج نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ایل او سی یا پھرگلگت بلتستان میں اضافی فوج کی تعیناتی سے متعلق تمام خبریں بے بنیاد ہیں۔ ٹویٹ میں کہا گيا، "اس طرح کی کوئی بھی نقل و حرکت یا پھر اضافی فورسز کی تعیناتی بے بنیاد باتیں ہیں۔ ہم پاکستان میں چینی فوج کی موجودگی کی بھی سختی سے تردید کرتے ہیں۔"

بھارتی فوج نے بھی کم و بیش پاکستان کے اسی موقف کی تصدیق کی ہے تاہم بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فوج کی سرگرمیوں سے صاف ظاہر ہے کہ اس نے ایل او سی پر اپنی فوج کی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے۔ کشمیر کے بیشتر پہاڑی علاقے جو ایل او سی سے قریب ہیں وہاں بھارتی فوج کی نقل و حرکت میں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گيا ہے۔   

بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ پاکستان اب بھی کشمیرمیں شدت پسندی کو ہوا دینے کے لیے سرحد پار سے شدت پسندوں کو بھیجنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ جنرل بی ایس راجیو کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے لانچ پیڈ تیار ہیں اور شدت پسند کشمیر میں دراندازی کی کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے لوگ ان کا انتظار کر رہے ہیں۔"

بھارتی میڈیا کے مطابق لداخ میں چینی اور بھارتی فوجیں کشیدگی کم کرنے کے لیے اپنی اپنی پوزیشنز سے پیچھے ہٹنا شروع ہوگئی ہیں۔ پیر چھ جولائی کو بھارتی میڈیا میں سب سے بڑی شہ سرخی یہی ہے کہ ’لداخ میں وادی گلوان کی پیٹرولنگ پوسٹ 15 اور 17 سے تقریباً ایک کلو میٹر تک چینی فوجیں واپس ہوئی ہیں۔‘  لیکن اس سلسلے میں فوج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے اور ساری خبریں ذرائع کے حوالے سے ہیں۔

’ہمسائے ماں جائے‘ کو پاکستان سے بھی زیادہ پذیرائی بھارت سے ملی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں