1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تحفظ خوراکپاکستان

ایگری کلچر ریسرچ کونسل نے لوبیا کی چھ نئی اقسام تیار کر لیں

15 اگست 2022

پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے سائنسدانوں نے مقامی سطح پر تحقیق کرتے ہوئے لوبیے کی چھ نئی اقسام متعارف کروائی ہیں۔ غذائیت سے بھرپور لوبیے کی کئی اقسام اس سے پہلے بیرون ملک سے در آمد کی جا رہی تھیں۔

https://p.dw.com/p/4FT9V
Pakistan Landwirtschaft Entwicklung neuer Bohensorten
تصویر: PARC/NARC

پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے سائنسدانوں نے مقامی فارمز میں تحقیق کرتے ہوئے لوبیا کی چھ نئی اقسام  متعارف کروائی ہیں، جن کی پیداوار سے نا صرف خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں زیر کاشت رقبہ بڑھے گا بلکہ کسانوں کی آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافے ہوگا۔ اس سے پہلے فرینچ بین سمیت لوبیے کی کئی انتہائی خوش ذائقہ اقسام بیرون ملک سے در آمد کی جا رہی تھیں، جس پر کثیر زرمبادلہ خرچ ہوتا تھا۔

Pakistan Landwirtschaft Entwicklung neuer Bohensorten
تصویر: PARC/NARC

 پی اے آر سی نے لوبیے کی کون سی نئی اقسام متعارف کروائی ہیں؟

حافظ اسد اللہ پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل سے منسلک سینیئر سائنسدان ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پبلک سیکٹر کے پانچ سالہ ترقیاتی پروگرام کے تحت 2019ء میں مختلف اجناس کی مقامی کاشت کو 30 فیصد تک بڑھانے کے لیے  تحقیقی منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا۔ ان میں چنے، مونگ، مسور اور ماش کی دالوں کے علاوہ لوبیا بھی شامل تھا۔ نیشنل ایگری ریسرچ کونسل ہر برس ان کی پیداوار 15 سے 20 فیصد تک بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔

حافظ اسد اللہ نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ اینڈ ایگری کلچر پشاور نے لوبیا کی لال اور زرد اقسام کی کامیاب کاشت کا آغاز کیا، جن کی فی ایکڑ پیداوار 2000 کلوگرام ہے۔ اس کے ساتھ ہی خیبر پختونخواہ میں دیگر ہل سٹیشنز پر تحقیق کرتے ہوئے مانسہرہ ایگری کلچر ریسرچ سٹیشن  نے لوبیے کی ایک اور نئی قسم "ہمالیہ ون"  کے نام سے متعارف کروائی، جس کی فی ایکڑ پیداوار 1600 کلوگرام ہے۔ سوات ایگری کلچر سٹیشن نے تحقیق میں مزید پیش رفت کرتے ہوئے گرین ہلز، سوات ریڈ اور گوریلا کے نام سے لوبیے کی مزید تین اقسام کاشت کیں، جن کی فی ایکڑ پیداوار بالترتیب 1600، 1500 اور 2200 کلوگرام تک ہیں۔

 پراجیکٹ کے نتائج کیا ہیں؟ 

پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کی ایک تحقیق کے مطابق بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ماضی (2007-2008)  میں پاکستان میں مختلف اجناس کی پیداوار 872 ایکڑ سے گھٹ کر 789 ایکڑ رہ گئی تھی، جس کے بعد نیشنل ایگری کلچر ریسرچ کونسل نے زرعی ترقیاتی شعبے کے مختلف سپانسرز کی مدد سے نئے منصوبوں کا آغاز کیا۔  

تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ماش کی دال کی کاشت  1482 ایکڑ، چنے 2717 ایکڑ، اور مسور کی دال کی پیداوار 247 ایکڑ تک بڑھ چکی ہے۔ اس دوران مونگ کی دال کی کاشت بڑھ کر 267،000 ٹن تک پہنچ گئی ہے، جو پاکستان کی ضروریات 180،000 ٹن سے بہت زیادہ ہے اور اضا فی مقدار بر آمد کی جا رہی ہے۔

Hülsenfrüchte
تصویر: Silas Stein/dpa/picture alliance

پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے مطابق فی الوقت لوبیا سب سے زیادہ جنوبی پنجاب میں کاشت کیا جا رہا ہے، جہاں اس کی کل پیداوار کا 85 فیصد حصہ کاشت ہوتا ہے۔ نئے منصوبے کے تحت پی اے آر سی بلوچستان اجناس کی کاشت کو بڑھانے کے لیے مسلسل سرگرم ہے، جس کے بعد ان اجناس خصوصا لوبیے کی پیداوار میں مزید اضافے کی توقع  ہے۔ بلوچستان کی مٹی اور آب وہوا فرینچ لوبیا کی کاشت کے لیے انتہائی موافق سمجھی جاتی ہے۔

لوبیے کے فوائد کیا ہیں؟

پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل سے وابستہ سائنسدان خالد محمود کھوکر کے مطابق لوبیے کی مختلف اقسام خصوصا فرینچ بینز میں روزانہ کی صحت مند خوراک کے اجزاء شامل ہوتے ہیں، جو جسم کی درست نشونما اور میٹابولزم  کے لیے لازمی ہیں۔  لوبیے میں مختلف وٹامن جیسے اے، سی، ڈی، ای، تھائی مائن، پینٹوتھینک ایسڈ، کیلشیم، فاسفورس، زنک اور دیگر تمام ضروری غذائی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ان میں غذا کو ہضم کرنے میں مدد دینے والے فائبرز ہوتے ہیں، جو کولیسٹرول اور شوگر لیول کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ لوبیے میں موجود رائبو فلاوین مائیگرین اٹیک میں متاثرہ شخص کی قوت برداشت بڑھاتا ہے۔ اسی لیے ماہر غذائیات لوبیے اور دیگر پھلی والی غذاؤں کو روز مرہ کی خوراک  میں شامل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ 

خالد کھوکر نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ لوبیے میں آئرن کی وافر مقدار ہوتی ہے، جو جسم کو صحت مند اور توانا رکھنے میں مدد دیتا  ہے۔ اس کے ساتھ ہی لوبیے میں موجود کاپر ہوموگلوبن کو ریگولیٹ رکھتا ہے اور وٹامن سی کی وافر مقدار بیکٹیریا اور وائرس کے خلاف جسم کے مدافتی نظام کو مضبوط بناتی ہے۔