پاکستان میں قدرتی آفات سے بچاؤ اور آگاہی کا قومی دن
8 اکتوبر 2018اس تباہ کن زلزلے میں قریب ايک لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن ميں ہزاروں بچے بھی شامل تھے۔ حکومت پاکستان آج قدرتی آفات کے بارے میں آگاہی اور ان سے بچاؤ کا قومی دن منا رہی ہے۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے 8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو مسلسل تباہ کن سیلابوں اور زلزلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد قدرتی آفات سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ ہے۔
پاکستان کے سرکاری نیوز چینل پی ٹی وی کے مطابق پير آٹھ اکتوبر کو مظفرآباد کے خورشید حسن اسٹیڈیم میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس ميں ٹھيک آٹھ بج کر باون منٹ پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی اس تباہ کن زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تقاریب کا انعقاد کیا گیا ہے۔
پاکستان میں آج سوشل میڈیا پر اس ہولناک سانحے کو یاد کیا جا رہا ہے۔ ٹوئٹر کے ایک صارف تقدس علی نے لکھا،’’ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ آج بھی 2005ء کے زلزلے کے متاثرین کی بہت بڑی تعداد کو رہائش، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔‘‘
8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر تباہی آئی تھی۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ایک بڑی رہائشی عمارت زمین بوس ہو گئی تھی۔ اس قدرتی آفت کے بعد کئی بین الاقوامی اداروں نے پاکستان میں امدادی کام سر انجام ديے۔ بہت سے پاکستانیوں نے بھی اس مشکل گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کی مدد کی۔ ٹوئٹر کی ایک صارف رابیل چوہدری نے لکھا، ’’میں مظفر آباد میں رضاکارانہ کام کرنے گئی تھی، پورا شہر تباہ ہو گیا تھا، سب دیواریں منہدم ہو گئی تھیں۔‘‘
ٹوئٹر پر ایک اور صارف نے لکھا،’’ 8 اکتوبر 2005ء کو میں صرف نو برس کا تھا، مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے، کئی ہزار افراد ہلاک ہو گئے، لاکھوں بے گھر ہو گئے تھے۔‘‘
پی ٹی وی پر آج کے دن کی مناسبت سے شائع ہونے والی رپورٹ میں لکھا گیا ہے، ’’پاکستان کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ جانی نقصانات کے خطرات کم کرنے کے ليے مضبوط ڈھانچوں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ عمران خان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت قدرتی آفات کے تسلسل اور شدت سے بخوبی آگاہ ہے اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان کے نفاذ اور خطرات کم کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں ۔