1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدارتی انتخابات، کون ہو گا کامیاب؟

27 اگست 2018

پاکستان میں عام انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت کے قیام کے بعد صدر مملکت کے انتخاب کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ پیپلز پارٹی کا جھکاؤ نواز لیگ کی بجائے تحریک انصاف کی جانب دکھائی دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/33qfi
Parlamentsgbäude in Islamabad Pakistan
تصویر: AP

چار ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں الیکٹورل کالج قومی اور صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ ہے جہاں تحریک انصاف اور اس کے حمایتی بظاہر مضبوط دکھائی دیتے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے سینیئر رہنما چودھری اعتزاز احسن کا نام سامنے آتے ہی پہلے سے منقسم حزب اختلاف کی جماعتوں میں نیا جھگڑا شروع ہوگیا۔ نواز لیگ کی جانب سے اعتزاز احسن کے نام کو مسترد کر دیا گیا تاہم مری میں ایک بیٹھک بلائی گئی تاکہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے متفقہ امیدوار کا نام سامنے آ سکے لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ نواز لیگ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی کی صورت میں حمایت کی پیشکش کر چکی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پیپلز پارٹی عملاﹰ آصف علی زرداری کے فیصلوں کی پاسداری میں مصروف ہے اور زرداری صاحب اپنے اور اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کے خلاف جاری منی لانڈرنگ کیس کے باعث جان بوجھ کر ایسے فیصلے کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کا اتحاد ممکن ہی نہ ہوسکے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ بظاہر پیپلز پارٹی نواز لیگ کی بجائے تحریک انصاف سے معاملے درست کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اپوزیشن جماعتوں میں اختلافات مزید بڑھنے کی توقع ہے۔ مظہر عباس کے مطابق اسپیکرقومی اسمبلی کے لیے دیگر اپوزیشن جماعتوں سے ووٹ لینے کے باوجود وزیر اعظم کے انتخاب میں پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کے نام پر تحفظات کا اظہار کیا اور انہیں ووٹ نہیں دیا۔

Maulana Fazal ur Rehman
اپوزیشن اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کی حمایت مولانا فضل الرحمان کو حاصل ہے۔ تصویر: picture alliance / dpa

اپوزیشن اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کی حمایت مولانا فضل الرحمان کو حاصل ہے۔ آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان کے صدارتی امیدوار بننے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان تو پیپلز پارٹی کے موقف کے حامی اور وکیل تھے، وہ خود کس طرح امیدوار بن گئے۔ زرداری کے بقول مولانا فضل الرحمان کے اس کردار پر سوالیہ نشان رہے گا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں صدارتی انتخاب کے معاملے پر میڈیا کو مؤرد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے چودھری اعتزاز احسن کا نام صدارت کے لیے تجویز کیا گیا تھا لیکن میڈیا نے اسے صدارتی نامزدگی بنادیا جبکہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے دو امیدوار ہوئے تو صدارتی انتخاب میں فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا۔

تاہم ن لیگ کے احسن اقبال نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام جماعتیں متحدہ ہیں اور ایک بار پھر آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے انہیں راضی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے مولانا فضل الرحمان آصف زرداری سے ملاقات کریں گے۔

آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور ایف آئی اے کی جانب سے چوتھی مرتبہ بلانے پر آج پیر 27 اگست کو پیش ہوئے جبکہ وہ منی لانڈرنگ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے چار ستمبر تک عبوری ضمانت پر ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ اس سے قبل ہی ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل ہوجائے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ مرتبہ بھی سینیٹر رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد کیا تھا اور اس بار سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے لیے بھی نواز لیگ سینٹر رضا ربانی کے نام پر راضی تھی لیکن آصف زرداری انہیں اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف رکھنے کے باعث ذاتی طور پر پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کی مدد سے صادق سنجرانی کے خفیہ حمایتی انہیں چیئرمین سینیٹ بنانے میں کامیاب رہے۔

صدارتی انتخاب کا طریقہ کار

صدارتی انتخاب کے لیے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا ریٹرننگ آفیسر ہوں گے جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور سینیٹ و قومی اسمبلی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پریزائیڈنگ آفیسر کی ذمہ داری سر انجام دیں گے۔

سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی پارلیمنٹ ہاؤس میں پولنگ کے عمل میں حصہ لیں گے جبکہ ارکان صوبائی اسمبلی اپنی متعلقہ اسمبلیوں میں قائم پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ میں حصہ لیں گے۔ خالی نشستوں کے علاوہ قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے کُل ممبران کی تعداد 706 ہے۔  اس طرح قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے ہر ممبر کا ووٹ ایک ووٹ تصور ہوگا۔ سب سے چھوٹی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے۔ یوں دیگر تینوں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد کو 65 پر تقسیم کرنے سے جو نمبر نکلتا ہے، ان اسمبلیوں کے اتنے اتنے ارکان مل کر ایک ووٹ بنے گا۔ پنجاب کے 5.7 ممبران ، سندھ اسمبلی کے 2.58 ممبران اور خیبر پختونخوا کے 1.9 ممبران اسمبلی کا ایک ووٹ شمار ہوگا۔

Pakistan Anwalt Aitzaz Ahsan Anwalt von Ministerpräsident Yousuf Raza Gilani in Islamabad
پیپلز پارٹی کی جانب سے سینیئر رہنما چودھری اعتزاز احسن کا نام سامنے آتے ہی پہلے سے منقسم حزب اختلاف کی جماعتوں میں نیا جھگڑا شروع ہوگیا۔تصویر: dapd

قومی اسمبلی میں اس وقت 342 میں سے 330 ارکان موجود ہیں اور 12 نشستیں خالی ہیں، اس طرح 330 میں 176 ارکان پی ٹی آئی اتحاد، 150 اپوزیشن اتحاد اور 4 آزاد ارکان ہیں۔ سینٹ میں 68 ارکان کا تعلق اپوزیشن اتحاد سے ہے، 25 کا تعلق پی ٹی آئی اتحاد سے جبکہ 11 ارکان آزاد ہیں۔ مجموعی طور پر وفاقی پارلیمان میں پی ٹی آئی اتحاد کو 201 اور اپوزیشن اتحاد کو 218 ووٹ حاصل ہیں جبکہ 15 ارکان آزاد ہیں۔ اور ان ہی آزاد امیدواروں کے ذریعے کایا پلٹنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔