1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وفاقی کابینہ کے فیصلے، کیا تبدیلی آئے گی؟

عبدالستار، اسلام آباد
24 اگست 2018

وفاقی کابینہ کے فیصلوں کا کئی حلقے پاکستان میں خیر مقدم کر رہے ہیں لیکن کئی دوسرے ناقدین کے خیال میں ان فیصلوں سے ملک میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔

https://p.dw.com/p/33ifu
Pakistan - Oppositionspolitiker Imran Khan in seinem Anwesen in Bani Gala
تصویر: Reuters/C. Firouz

آج بروز جمعہ وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس نے وزیروں کے فنڈز جاری کرنے کے اختیار کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا کو بتایا کہ وزیرِ اعظم خصوصی طیارہ استعمال نہیں کریں گے اور وہ فرسٹ کلاس کے بجائے کلب کلاس استعمال کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچی آبادی کے مسائل کے حوالے سے ایک ٹاسک فورس بنائی جائے گی جب کہ تمام ماس ٹرانزٹ منصوبوں کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے گا۔

کابینہ کے اقدامات کو کئی حلقوں نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ معروف صحافی اور روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے سابق ایگزیکیٹو ایڈیٹر ضیاء الدین کے خیال میں عمران خان کی نئی حکومت کی طرف سے یہ بہت مثبت اشارے ہیں۔ انہوں نے ان فیصلوں پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا، ''میرے خیال میں صوابدیدی فنڈز کا خاتمہ اچھی بات ہے۔ رکن قومی اسمبلی انتخابات میں پیسے خرچ کرتے تھے اور بعد میں ترقی کے نام پر فنڈز لیتے تھے۔ یہ کرپشن کا بہت بڑا ذریعہ بن گیا تھا۔ اسی طرح کچی آبادی جہاں کرڑوں انسان بستے ہیں۔ ان کی فلاح کے لیے سوچنا بھی بہت خوش آئند ہے۔‘‘

تاہم ضیا الدین کے خیال میں سمندر پار پاکستانی کچھ بہت زیادہ سرمایہ کاری نہیں کر پائیں گے، ’’شوکت عزیز اور نواز شریف نے بھی سمندر پار پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکے تھے کیونکہ پاکستان میں سرمایہ کاری میں رسک بہت ہے، جو سمندر پاکستانی لینا نہیں چاہتا۔‘‘

عمران خان کے سادگی کے دعوؤں کے ساتھ ہی ملک کے کئی حلقے ان پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ معروف صحافی سلیم صافی نے عمران خان کے کئی حالیہ دعووں کی پر زور انداز میں نفی کی ہے۔ لیکن پاکستان میں صرف صحافی ہی نہیں بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد پی ٹی آئی کی حکومت کے دعوؤں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ امان میمن کے خیال میں یہ اعلانات دکھاوے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صرف سویلین اداروں پر زور چلا کر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ کیا خان صاحب کو ججوں اور جرنیلوں کی مراعات اور سہولیات نظر نہیں آتی۔ آپ آج اگر مہنگی کاریں نیلام کریں گے، تو کل کیا کسی بین الاقوامی کانفرنس، اجلاس اور ملاقاتوں کے لیے ایسی مہنگی کاریں کرائے پہ لیں گے۔ میرے خیال میں احکامات کی بجائے باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیے، جس میں نہ صرف سول بیورکریسی کی مراعات کا جائزہ لیا جانا چاہیے بلکہ ججوں اور جرنیلوں کی آسائیشوں کو بھی زیرِ بحث لانا چاہیے ورنہ لوگ اسے دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھیں گے۔‘‘

مزید براں آج وزیرِ خارجہ شام محمود قریشی نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بھی خدوخال پیش کیے، جس میں انہوں نے اسلام آباد کی اس خواہش کا اعادہ کیا کہ وہ افغانستان میں امن چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے اور واشنگٹن سے بھی خواشگوار تعلقات کا خواہشمند ہے۔ اسلام آباد میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ناقدین کے خیال میں پاکستان کی تمام خواہشات کے باوجود نہ ہی افغانستان میں امن ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اور نہ پاکستان اور امریکا قریب آئیں گے۔

اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارہ برائے عالمی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کا خیال ہے کہ افغانستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک خطے کے ممالک اور امریکا میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکا حقانی نیٹ ورک اور طالبان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور واشنگٹن کے خیال میں اسلام آباد اُن کی پشت پناہی کرتا ہے۔ پاکستان کے خیال میں بھارت کا افغانستان میں اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے اور نئی دہلی کابل میں بیٹھ کر پاکستان کو غیر مستحکم کر رہا ہے اور امریکا یہ تماشا دیکھ رہا ہے۔ اسلام آباد کا یہ شکوہ ہے کہ امریکا جان بوجھ کر بھارت کی حمایت کر رہا ہے اور پاکستان کے مفادات کو نظر انداز کر رہا ہے۔ تو ایسی صورت میں نہ ہی امریکا اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہوں گے اور نہ افغانستان میں امن قائم ہو گا۔‘‘  

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں