1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سیلاب سے فصلیں تباہ، غذائی بحران کا خطرہ

14 ستمبر 2022

ابتدائی تخمینوں کے مطابق صرف صوبہ سندھ میں سیلاب کی وجہ سے19 لاکھ ٹن چاول ضائع ہو گیا ہے۔ گنے کی 88 اور کپاس کی 61 فیصد فصلوں کا نقصان ہوا، ان فصلوں کی تباہی سے صرف سندھ میں معیشت کو سولہ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Gp2Z
Pakistan | Überschwemmungen | Hilfe für Flutopfer in Daddu
تصویر: Ahmed Ali/AA/picture alliance

پاکستان کے صوبوں بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے درجنوں اضلاع میں سیلاب نے وسیع پیمانے پر زرعی اراضی کو تباہ کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کی جلد ازجلد  بحالی نہ کیگئی تو ملک کو جلد ہی خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بلوچستان کے ضلع پشین میں ایک خاتون کسان نازیہ بی بی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں تشویش ہے کہ اگر ابھی کھیتوں کی نکاسی نہ کی گئی تو ہم سردیوں کے موسم کے لئے فصلیں نہیں لگا سکیں گے جن میں سب سے اہم گندم کی فصل ہے۔'' زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے حکومت نے خوراک کی سلامتی کے بحران سے خبردار کیا ہے۔ پاکستانی حکام کو  پہلے ہی پڑوسی ملک افغانستان اور ایران سے ٹماٹر اور پیاز درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔

دارالحکومت اسلام آباد میں ایک دکان دار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ فی الحال فروخت کرنے کے لیے سبزیوں کا نیا اسٹاک خریدنے سے قاصر ہے۔ اس دکان دار ک مطابق ''میں پیاز اور ٹماٹر کے درآمدشدہ ذخیرے کے گوداموں تک پہنچنے کا انتظار کر رہا ہوں تاکہ اسے وہاں سے خریدنے کے بعد آگے فروخت کر سکوں۔''

Flut in Pakistan
پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے سیہون میں بے گھر سیلاب متاثرین کھانے کے حصول کے لیے قطار بنائے ہوئےتصویر: Husnain AFP/AFP

غذائی معاونت درکار

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر امدادی کاموں کی سربراہی کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے خوراک سے متعلق ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اب تک بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد کو غذائی معاونت مہیا کر چکا ہے۔ ڈبلیو ایف پی نے ستمبر کے مہینے میں صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کہا ہے کہ اس کا مقصد سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں غذائی عدم تحفظ کا شکار 19 لاکھ افراد  کے لیے اپنی غذائی معاونت کو توسیع دینا ہے۔ایک  سماجی کارکن اور سندھ کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر عابد میر کے مطابق ، '' مختلف دیہاتوں میں حالات اس قدر سنگین ہیں کہ خوراک کی تقسیم کے دوران لوگ ایک دوسرے سے خوراک کے تھیلے چھین رہے ہیں۔ یہ دیکھنا واقعی دل دہلا دینے والا ہے۔''

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان کے دورے پر

غذائی امداد کا کچھ حصہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی  اپنے صوبائی ہم منصبوں کے ذریعے تقسیم کرتی ہے۔ بلوچستان کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ایک عہدیدار محمد یونس نے بتایا کہ دیگر غذائی ریلیف براہ راست بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ''بین الاقوامی این جی اوز کے اپنے مقامی شراکت دار ہیں جنھیں وہ اپنی امداد مہیا کرتے ہیں۔ ان کا نقصانات اور متاثرین کا جائزہ لینے کے اپنے طریقے ہیں. انہیں حکومت سے کسی خاص علاقے میں کام کرنے کی اجازت حاصل کرنی چاہیے۔''

کیا امداد پاکستانی سیلاب متاثرین تک پہنچ رہی ہے؟

اگرچہ پاکستانی حکومت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سیلاب سے متاثرہ 45 لاکھ سے زائد گھرانوں کو نقد ادائیگیاں فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن مون سون کے موسم  سے نمٹنے کی ناکافی اقدامات پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور کے ایک کسان ثقلین عباس نےکے مطابق حکومت نے لوگوں کے گھروں اور زمینوں کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔ انہوں نے کہا، ''برسوں سے میرا خاندان اپنا پیٹ پالنے کے لیے چاول اور گندم کی کاشت پر انحصار کرتا رہا ہے اور اب ہماری تمام فصلیں پانی میں ڈوب گئی ہیں۔''

ڈبلیو ایف پی کے مطابق  وہ ''کمیونٹی انفراسٹرکچر میں بہتری'' لا کر آئندہ سال سے آب و ہوا کے خطرات سے نمٹنے کے پروگرام شروع کرے گی۔ تاہم ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کے لیے ملک کو سیلابوں کے اثرات سےبچانے کے لیے  بڑی مقدار میں بین الاقوامی امداد کا حصول آسان نہیں ہوگا۔

سیلاب زدہ زرعی شعبے کے معیشت پر اثرات

 پاکستان کو ایک ایسے وقت میں ان تباہ کن سیلابوں کا سامنا ہے جب اس کی معیشت بھی بحران کا شکار ہے۔ افراط زر کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ پاکستان زرعی مصنوعات کا ایک بڑا برآمد کنندہ بھی ہے اور سیلاب سے ہونے والے نقصان سے ممکنہ طور پر آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بھی کم ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر پاکستان چاول برآمد کرنے والا دنیا کا چوتھا سب سے بڑا ملک ہے۔ وفاقی  ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان نے مالی سال2021-22  کے دوران اڑھائی ارب ڈالر کی ریکارڈ مالیت کے چاول برآمد کیے۔

سیلاب سے متاثرہ صوبہ سندھ چاول کی پیداوار کے42 فیصد کا حصہ دار ہے۔ نیپال میں قائم تحقیقی تنظیم انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ کی جانب سے سندھ میں فصلوں کے نقصان سے متعلق ایک جائزہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ چاول کی کاشت والے علاقوں میں سیلاب کی شدت زیادہ تھی۔اس  صورتحال کے نتیجے میں تخمینوں کے مطابق 19 لاکھ ٹن چاول ضائع ہوا جو صوبے میں متوقع چاول کی پیداوار کے 80 فیصد کے مساوی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گنے کی فصل کے 88 اور کپاس کی فصل کے 61 فیصد نقصانات کے ساتھ صرف سندھ میں مجموعی معیشت پر13 ارب ڈالر مالیت کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سندھ کے متعدد اضلاع میں تین اہم سبزیوں  ٹماٹر، پیاز اور مرچ  کی فصلوں کو374 ملین ڈالر کے نقصانات کا سامنا ہے۔

 زویا ناظر  ( ش ر، ر ب)

بلوچستان کے دشت میں بھی سیلاب