1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤنز کی تاریخ

عبدالستار، اسلام آباد
11 مئی 2023

پاکستان میں مذہبی، فرقہ وارانہ، جہادی، سیاسی، لسانی اور ترقی پسند جماعتوں کے خلاف کریک ڈاون ہوتے رہے ہیں۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ ان کریک ڈاؤنز کے نتائج ملک کے لیے مثبت نہیں ہوتے۔

https://p.dw.com/p/4RDVL
Pakistan Musharraf Prozess in Rawalpindi 26.04.2013
تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ طاقت کے استعمال سے معاملات بگڑتے ہیں، جس کا نقصان نہ صرف ملک کی سلامتی کو ہوتا ہے بلکہ اس سے سماجی ڈھانچا بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔

بحران زدہ پاکستان میں عام آدمی پر کیا گذر رہی ہے؟

القادر ٹرسٹ کیس سے عمران خان اور ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟

کن جماعتوں کے خلاف کریک ڈاون ہوا

 پاکستان میں خدائی خدمت گار، ریاست قلات کے عہدے دار، عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، مہاجر قومی موومنٹ، جئے سندھ تحریک، جئے سندھ محاذ، بلوچستان نیشنل موومنٹ، کالعدم سپاہ صحابہ، کالعدم سپاہ محمد،  کالعدم تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، کالعدم جماعت الدعوة اور دیگر کئی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوئے ہیں تاہم ان آپریشنوں اور کریک ڈاؤنز کی شدت کے حوالے سے ہمیشہ مورخین، سیاسی کارکنان اور دانشوروں میں بحث رہی ہے۔

خدائی خدمتگار کے خلاف ایکشن

پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ چھوٹی قومیتوں کے نمائندوں اور جماعتوں کے خلاف پاکستان کی تشکیل کے فورا بعد ہی کریک ڈاون شروع ہوگیا تھا۔ معروف پختون دانشور اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ ان کے صوبے کو تشکیل پاکستان کے بعد ایک خطرناک کریک ڈاون کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے صوبے کی اسمبلی میں کانگریس اور خدائی خدمتگار کی چونتیس کے قریب نشستیں تھیں جب کہ اسمبلی کی کل نشستیں پچاس تھیں۔ لہذا خدائی خدمت گار پر پابندی لگائی گئی۔ ان کے دفاتر کو بموں سے اڑایا گیا۔ باچا خان اور ان کے خاندان کے کئی افراد کو گرفتار کیا گیا اور بھابڑا میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو ہلاک و زخمی کیا گیا۔‘‘

خیال کیا جاتا ہے کہ بھابڑا کے واقعے کو پختون تاریخ میں ایک سیاہ دن قرار دیا جاتا ہے۔ سابق پاکستانی سفیر برائے افغانستان رستم شاہ مہمند نے چودہ اگست دوہزار انیس کو انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون میں اپنے ایک کالم میں دعویٰ کیا تھا کہ بھابڑا میں بارہ اگست انیس سو اڑتالیس کو چھ سو سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا گیا تھا جب کہ پندرہ سو کے قریب کو زخمی کیا گیا تھا۔ رستم شاہ مہمند لکھتے ہیں کہ اگست انیسو سینتالیس میں حکام نے بغیر وجہ بتائے کسی کو بھی حراست میں لینے کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔

عوامی لیگ کے خلاف کریک ڈاون

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پی پی پی کے خلاف سب سے خطرناک کریک ڈاون کیا گیا تھا لیکن افراسیاب کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں عوامی لیگ کے خلاف آپریشن زیادہ بڑا اور خطرناک تھا۔ ''شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ پر ساٹھ کی دہائی سے سختیاں تھیں لیکن مارچ انیسو اکتہر میں ان پر بدترین کریک ڈاون کیا گیا، جس میں ہزاروں لوگ کو ہلاک کیا گیا اور بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔‘‘

افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ یہ کریک ڈاون ایک ایسی جماعت کے خلاف کیا گیا، جس نے انتخابات بھاری اکثریت سے جیت لیے تھے۔

سب سے زیادہ آپریشینز    

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے معروف مورخ شاہ محمد مری کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ کریک ڈاونز کا سامنا ان کے صوبے کے سیاسی رہنماوں اور کارکنان نے کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے صوبے میں تشکیل پاکستان کے بعد ریاست قلات کے عہدیداروں کے خلاف کریک ڈاون شروع ہوا اور پچاس کی دہائی میں نوروز خان کے خلاف کریک ڈوان ہوا جب کہ ساٹھ کی دہائی میں بھی بلوچ رہنماؤں کے خلاف ایکشن ہوتے رہے۔‘‘

نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن

افراسیاب اور شاہ محمد مری دونوں ہی ستر کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف کریک ڈاون کو ایک بڑا کریک ڈاون قرار دیتے ہیں۔ شاہ محمد مری کا کہنا ہے کہ اس کریک ڈاون کے دوران تقریبا تمام ممتاز بلوچ سیاست دانوں کو گرفتار کیا گیا۔ ''غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل، خیر بخش مری سمیت کئی رہنماوں کو پابند سلاسل کیا گیا جب کہ صوبے میں فوجی آپریشن بھی شروع کیا گیا۔‘‘

افراسیاب کہتے ہیں کہ پنجاب اور دوسرے علاقوں سے بھی اس کریک ڈاون کے دوران لوگوں کو پکڑا گیا۔ ''پنجاب سے تسنیم گردیزی اور معروف شاعر حبیب جالب سمیت کئی ترقی پسندوں رہنماوں کو گرفتار کیا گیا۔ جب کہ بڑے پیمانے پر سیاسی کارکنان کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ایسی گرفتاریاں ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہوئیں۔‘‘

مجھے گرفتار کر لیا جائے گا، عمران خان

کمیونسٹ پارٹی کے خلاف ایکشن

شاہ محمد مری کا کہنا ہے کہ ایک اور کریک ڈاون جس کو لوگ بھلا دیتے ہیں وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے خلاف تھا، جوپچاس کی دہائی میں شروع ہوا۔ یہ کریک ڈاون پنڈی سازش کیس کا نتیجہ تھا، جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ کچھ ملٹری افسران بائیں بازو کی ایک سیاسی جماعت کے رہنماوں کے ساتھ ملک کر لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ اس سازش کو ناکام بنا دیا گیا تھا اور لیاقت علی خان نے اس کی ناکامی کا اعلان مارچ انیسو اکیاون میں کیا تھا۔

 شاہ محمد مری کےمطابق اس کریک ڈاون میں فیض احمد، سجاد ظہیر، جنرل اکبر خان سمیت کئی نامور شخصیات کو گرفتار کیا گیا۔ ''جب کہ بائیں بازو کی جماعت پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔‘‘

پی پی پی مخالف کریک ڈاون

افراسیاب خٹک کے خیال میں دوسرا بڑا کریک ڈاون ستر کی دہائی میں بھٹو کی گرفتاری اور پھانسی کے بعد پی پی پی کے خلاف شروع کیا گیا۔ '' اگراسی کی دہائی میں چلنے والی تحریک برائے بحالی جمہوریت کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے، تو یہ کریک ڈاون بھی بہت بڑا تھا۔ جس میں اتنے سیاسی کارکنان گرفتار ہوئے کہ جیلیں بھر گئی تھیں۔ کئی کو کوڑے لگے اور کئی کو تشدد کا سامنا کیا۔ زیادہ تر کارکنان پی پی پی کے تھے۔‘‘

افراسیاب خٹک ان کریک ڈاونز کے علاوہ مہاجر قومی موومنٹ، جس کو اب متحدہ قومی موومنٹ کہا جاتا ہے، کے خلاف فوجی ایکشن کو بھی بڑا قرار دیتے ہیں۔ ''مہاجروں کی پاکستان میں آبادی بہت زیادہ نہیں ہے لیکن انسیو بانوے میں ان کے خلاف آپریشن شروع ہوا، جو بعد میں بھی چلتا رہا اور اس میں بھی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔‘‘

خیال کیا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے علاوہ انیسو اٹھانوے کے بعد جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف بھی کریک ڈاونز کئے گئے اور مشرف کے دور میں کئی ایسی تنظیموں کو کالعدم بھی قرار دیا گیا۔