1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں خواتین ججوں کی تعداد اتنی کم کیوں ہے؟

17 مئی 2024

پورے پاکستان اور جنوبی ایشیا میں خواتین جج بننے اورعدلیہ میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس راستے پر قدم بڑھانے والی خواتین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا پدرسری نظام ان کی راہ میں رخنہ بن رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4fyCn
 جسٹس عائشہ ملک سن 2022 میں عدالت عظمیٰ میں تعینات ہونے والی پہلی خاتون جج تھیں
جسٹس عائشہ ملک سن 2022 میں عدالت عظمیٰ میں تعینات ہونے والی پہلی خاتون جج تھیںتصویر: Press Information Department/AP/picture alliance

کئی دہائیوں قبل پاکستانی عدالتوں میں اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچنے اور ملک کی پہلی خاتون جج بننے کا اعزاز حاصل کرنے والی خالدہ راشد خان کہتی ہیں کہ "مردانہ شاونیت" نے انہیں پاکستان کی عدلیہ کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے میں کافی رکاوٹیں ڈالیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "میری تقرری سن 1994میں پشاور ہائی کورٹ میں ہوئی تھی، لیکن اس وقت قانونی برادری کے مرد اراکین، بالخصوص وکلاء کو یہ پسند نہیں آیا اور وہ میرے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے۔"

پاکستانی سپریم کورٹ کے عملے میں خواتین کی تعداد انتہائی کم

پاکستانی عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی کم کیوں؟

حالانکہ خالدہ راشد کو پاکستان کے سیناریٹی سسٹم کے تحت چیف جسٹس بننے کا موقع ملا تھا لیکن انہیں یہ خدشہ تھا کہ "جنہوں نے کبھی میرے ساتھ بطور جج (احترام کا) سلوک نہیں کیا وہ اس اعلیٰ عہدے پر میری حمایت کیسے کرسکتے ہیں۔"

انہوں نے بالآخر پاکستان سے باہر پوسٹنگ لینے کا فیصلہ کیا اور سن 2003 میں روانڈا کے لیے بین الاقوامی فوجداری ٹرآیئبونل میں جج بن گئیں۔

مسرت ہلالی پاکستان سپریم کورٹ کے جج کے طور پر حلف لیتے ہوئے
مسرت ہلالی پاکستان سپریم کورٹ کے جج کے طور پر حلف لیتے ہوئےتصویر: Fahad Pervez/PPI/Newscom World/IMAGO

پاکستانی سپریم کورٹ میں داخل ہونے والی پہلی خاتون

خالدہ راشد خان کے واقعے کے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے کے بعد بھی پاکستان کے ججوں اورعدالتی افسران میں خواتین کی نمائندگی کافی کم ہے۔ پانچ میں سے ایک سے بھی کم خواتین ہیں، حالانکہ پاکستان کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔

پاکستانی سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی کی راہ ہموار

اعلیٰ عدالتوں میں صرف سات خواتین خدمات انجام دے رہی ہیں جب کہ سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور پانچ ہائی کورٹوں میں ججوں کی مجموعی تعداد 126 ہے۔

ان میں سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ ملک سن 2022 میں عدالت عظمیٰ میں تعینات ہونے والی پہلی خاتون جج تھیں، ان کے بعد سن2023 میں ہلالی کی تقرری ہوئی۔ سپریم کورٹ کے سولہ ججوں میں اس وقت صرف دو خواتین ہیں۔

’عورتوں کو کبھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے‘

یہ صنفی فرق ججوں اور مجسٹریٹوں سے آگے بھی موجود ہے۔ پاکستان کے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق رجسٹرڈ لیگل پریکٹشنرز میں خواتین کی تعداد صرف 17 فیصد اور پرازیکیوشن افسران میں 15فیصد ہے۔

 سپریم کورٹ کے سولہ ججوں میں اس وقت صرف دو خواتین ہیں
سپریم کورٹ کے سولہ ججوں میں اس وقت صرف دو خواتین ہیںتصویر: Anjum Naveed/AP Photo//picture alliance

جنوبی ایشیا میں خواتین ججوں کی تعداد بہت کم

پاکستان کے پڑوسی ملکوں میں بھی سینیئر ججوں میں خواتین کی کم نمائندگی کا معاملہ موجود ہے۔

ہائی کورٹ کی وکیل ردا طاہر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "پورے جنوبی ایشیائی خطے میں عدالتی انتظامیہ میں خواتین کی غیر متناسب نمائندگی ہے۔ خطے میں دس فیصد سے بھی کم خواتین ججز ہیں۔ نیپال میں وکلاء اور ججوں میں خواتین کی تعداد دس فیصد سے بھی کم ہے۔ البتہ بھارت میں ہائی کورٹ میں خواتین ججوں کی نمائندگی 13فیصد ہے۔

ردا طاہر کا کہنا ہے کہ گوکہ حالیہ برسوں میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حقیقی مساوات اسی وقت حاصل ہوگی جب خواتین عدلیہ کا نصف حصہ بن جائیں۔

پاکستانی سینیٹر حامد خان، جو ججوں کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے رکن ہیں، بھی اس خیال سے متفق ہیں۔

حامد خان کہتے ہیں،" امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی اعلیٰ عدالتوں میں بھی خواتین کی نمائندگی کم ہے لیکن ہماری عدالتوں میں ان کی موجودگی تو بہت ہی کم ہے۔"

انہوں نے کہا کہ خواتین وکلاء کی بھی کمی ہے، بالخصوص فوجداری قانون کے شعبے میں، کیونکہ خواتین کے دیوانی قانون کی طرف جانے کا رجحان زیادہ ہے۔

’لڑکیاں یہ نہیں کر سکتیں‘، یہ کہنا اب مناسب نہیں!

کیا نامزدگی کا طریقہ فرسودہ ہے؟

پاکستان میں سول ججوں اور جوڈیشیل مجسٹریٹوں کی تقرریاں صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ لیے جانے والے امتحان پاس کرنے کے بعد کی جاتی ہے۔ ضلعی عدالتوں کے لیے ججوں کا انتخاب ہائی کورٹوں یا پروموشن کے امتحانات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

اعلیٰ عدالتوں کی سطح پر تقرریوں کے لیے جوڈیشیل کمیشن آف پاکستان کی سفارشات درکار ہوتی ہے۔ جس کی سربراہی ملک کے چیف جسٹس کرتے ہیں اور اس میں ایک پارلیمانی کمیٹی بھی شامل ہوتی ہے۔

وکیل ردا طاہر کا خیال ہے کہ یہ نظام سینارٹی کے فرسودہ تصورات پر مبنی ہے، جوخواتین کو اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کی خواہش کے خلاف بھی ہے۔

وہ نامزدگی اورپروموشن کے عمل کو غیر شفاف قرار دیتی ہیں اورکہتی ہیں اور اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

پاکستانی خواتین کو با اختیار اور تعلیم یافتہ بنانے کا عزم

پاکستان میں پدرسری نظام کی گہری جڑیں

ریٹائرڈ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، جو پہلے لاہور ہائی کورٹ میں خدمات انجام دے چکی ہیں، کہتی ہیں کہ ملک کے نظام انصاف میں صنفی عدم مساوات کی بڑی وجہ پدرسری نظام ہے۔

جسٹس ناصرہ اقبال کا کہنا تھا، "ہمارا معاشرہ بڑے پیمانے پرمردوں کے زیر تسلط ہے۔ وہ ہمیں (عورتوں) اپنے برابر نہیں دیکھ سکتے۔ وہ ہمیں انسان نہیں بلکہ ایک شے سمجھتے ہیں اوراسی کے مطابق برتاؤ کرتے ہیں،''

انہوں نے کہا، "ذرا دیکھیں کہ ہمارے ہائی کورٹس کو صرف ایک خاتون (بے نظیربھٹو) کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہی خاتون ججز ملے جب کہ سپریم کورٹ میں صرف دو سال قبل ہی ایک خاتون جج کے عہدے پر فائز ہوسکی۔ یہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے سماج کی جڑیں پدرسری میں کس حد تک پیوست ہیں۔"

سینیٹ کی لاء اینڈ جسٹس کمیٹی کے رکن علی ظفر کا کہنا ہے کہ قانون سازوں نے عدالتوں میں کام کرنے والی خواتین کی کم تعداد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ذمہ داری ایک حد تک وکلاء پر بھی عائد ہوتی ہے جو خواتین کو آگے بڑھنے کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

علی ظفر کا کہنا تھا، "یہاں تک کے عدالتوں میں جسمانی پیشی بھی ایک مسئلہ بن جاتاہے، جب کمرہ عدالت میں لوگ اس قدر بھرے ہوتے ہیں کہ خواتین وکلاء کے لیے اپنے مقدمات پر بحث کرنے کے لیے مناسب جگہ نہیں مل پاتی ہے۔ اس لیے قانون کے شعبے میں خواتین کی شمولیت کی راہ میں سماجی مسائل کے علاوہ دیگر اڑچنیں بھی حائل ہیں۔"

کیا پاکستان میں خواتین ججوں کے لیے کوٹے کی ضرورت ہے؟

عدلیہ کے جونیئر اور سینیئر دونوں سطحوں میں صنفی فرق کی موجودگی کے درمیان پاکستان میں عدالتی تقرریوں کے لیے کوٹے پر عمل درآمد کے مطالبات میں اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم اس پر رائے منقسم ہے۔

ریٹائرڈ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال عدالتی تقرریوں میں اہل خواتین کے لیے خصوصی نشست مختص کرنے کی حمایت کرتی ہیں لیکن خالدہ راشد خان صلاحیت کی بنیاد پر مبنی نظام پر زور دیتی ہیں، جہاں مرد اور خواتین کو اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کے لیے یکساں مواقع حاصل ہوں۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی ترجمان ماہین پراچہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عدالتوں میں صنفی تفاوت کو ختم کرنے کے لیے ایک فعال اور طویل مدتی اپرو چ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "اس میں اہل خواتین، جن کی کمی نہیں ہے، کو پاکستان کے جوڈیشیل کمیشن جیسے فیصلہ سازی کے عہدوں پرتعینات کرنے اور قانونی پیشہ بنانے میں وسائل کی سرمایہ کاری بشمول تعلیم، تربیت اور پروفیشنل ترقی کے دیگر مواقع فراہم کرنا شامل ہے۔اور خواتین کے لیے یہ مواقع تمام طبقات اور خطے میں دستیاب ہونے چاہئیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "اس کے علاوہ نامزدگی اور تقرری کے طریقہ کار کو شفاف اور زیادہ جمہوری بنایا جانا چاہئے تاکہ تنازعات سے بچا جاسکے۔اس طرح عدلیہ پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔

 ج ا/ ص ز (جمیلہ اچکزئی، اسلام آباد)