پاکستان میں تین سزا یافتہ عسکریت پسندوں کو پھانسی دے دی گئی
15 مارچ 2017پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ پندرہ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ان مجرموں کو آج بدھ کے روز پھانسی دی گئی۔ پاکستان آرمی کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ان عسکریت پسندوں کا تعلق تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی اور ایک دوسرے عسکریت پسند گروپ حرکت الجہاد الاسلامی سے تھا، جنہیں موت کی سزائیں ان کے ملکی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں سنائی گئی تھیں۔
مزید 12 مجرمان کو پھانسی دی جائے گی، پاکستانی فوج
فوجی عدالتیں: گیارہ طالبان عسکریت پسندوں کو سزائے موت
فوجی عدالتیں، نو عسکریت پسندوں کو پھانسی کی سزائیں
پاکستانی حکومت نے مذہب کے نام پر عسکریت پسندی کرنے والے مجرموں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کا سلسلہ دسمبر 2014ء میں پشاور کے ایک اسکول پر طالبان کے اس بڑے حملے کے بعد شروع کیا تھا، جس میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں اکثریت اس آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی تھی۔
تقریباﹰ اسی وقت پاکستان میں عام مجرموں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کے سلسلے میں وہ پابندی بھی اٹھا لی گئی تھی، جس کے تحت عدالتوں کی طرف سے مجرموں کو موت کی سزائیں سنائی تو جاتی تھیں لیکن ایسی سزاؤں پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا تھا۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کے مطابق ان فوجی عدالتوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ حیثیت مشکوک رہی ہے اور اس حوالے سے بھی شبہات پائے جاتے رہے ہیں کہ آیا ایسی عدالتوں میں ملزمان کو اپنی صفائی کے قانون کے مطابق کافی لیکن لازمی مواقع بھی فراہم کیے جاتے رہے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستانی فوج کی طرف ان عدالتوں کی کارکردگی پر کی جانے والی ہر قسم کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے بار بار یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ایسے مقدمات میں ملزمان کو اپنے خلاف فیصلوں کی صورت میں اپیل کا حق بھی ہوتا ہے۔
دسمبر 2014ء کے پشاور حملے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جو فوجی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ان کی مدت شروع میں دو سال رکھی گئی تھی۔ یہ دو سالہ مدت ابھی حال ہی میں پوری ہو گئی تھی، جس کے بعد ملکی پارلیمان میں اس بارے میں بحث بھی ہوئی تھی کہ آیا ان عدالتوں کے کام کی مدت بڑھا دینا چاہیے۔