1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں تعمیراتی سرگرمیوں کا آغاز

15 اپریل 2020

پاکستان میں تعمیراتی سرگرمیوں کی اجازت ملتے ہی بڑے پیمانے پر کاروباری سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں، رئیل اسٹیٹ کے دفاتر کھل گئے ہیں اور تعمیراتی شعبے سے وابستہ صنعتوں میں کام شروع ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3awU9
Saudi Arabien Ausländische Arbeite auf einer Baustelle in Riad
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ملک کی کنسٹرکشن انڈسٹری کے لیے اعلان کردہ ریلیف پیکج کے بعد نئے منصوبوں کے لئے سرمایہ کار معلومات حاصل کر رہے ہیں۔

پاکستان میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر گہری نظر رکھنے والے املاک ڈاٹ کام کے چیف ایگزیکٹو آفیسرشاہنواز یعقوب بھٹی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں دو ہزار سولہ سے سے مندی کا رجحان چل رہا تھا اور پراپرٹی کی قیمتیں دو ہزار سولہ سے ہی چالیس فی صد نیچے گئی ہوئی ہیں۔ اس لیے کورونا کی وجہ سے پراپرٹی کی قیمتوں میں کوئی زیادہ کمی نہیں ہوئی ہے البتہ لاک ڈاون کی وجہ سے مارکیٹ بالکل ہی بند رہی ہے، لیکن تعمیراتی صنعت کو ملنے والی مراعات کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھی ہے ۔ اب مارکیٹ کھلتے ہی لوگ اپنے اپنے سوالات لے کر آنا شروع ہو گئے ہیں۔

تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کے بہتر امکانات

شاہنواز یعقوب بھٹی کہتے ہیں کہ کورونا کے باعث دیگر کاروباروں کا حال اچھا نہیں ہے‍۔ ہیلتھ سیکٹر میں کی جانے والی سرمایہ کاری بہتر ہو سکتی ہے لیکن اس میں وقت اور تجربہ بہت درکار ہے۔ ان حالات میں تعمیراتی شعبے کی طرف سرمایہ کار متوجہ ہو رہے ہیں، ویسے بھی پاکستان میں رئیل اسٹیٹ میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو قدرے محفوظ خیال کیا جاتا ہے۔

ان کے بقول حال ہی میں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کالا دھن رکھنے والا کوئی بھی سرمایہ کار اگر اس سال کے آخر تک زمین خرید کر دو ہزار بائیس کے آخر تک کوئی تعمیراتی منصوبہ مکمل کرلے تو اس سے رقم کے ذرائع کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔

یعقوب کہتے ہیں، ''پچھلی دو ایمنسٹی اسکیموں میں لوگوں نے پانچ کھرب روپے وائیٹ کروائے تھے، صرف تعمیراتی سیکٹر کے لیے مخصوص اس سکیم میں اگر دو کھرب روپے بھی آ گئے تو اس سے معیشت پر اچھے اثرات ہوں گے۔ ‘‘

عام آدمی کو کتنا فائدہ ہو گا؟

شاہنواز یعقوب بھٹی کے مطابق پاکستان کی حکومت نے تعمیراتی صنعت کو کئی ٹیکسوں میں ریلیف دیا ہے۔ عوام کو مکان بنانے کے لیے چھ سات فی صد مارک اپ پر کافی سستے قرضے دینے کا اعلان ہوا ہے۔ چھوٹے اور سستے مکان بنا کر فروخت کرنے والے کے لیے بھی مزید مراعات کا وعدہ ہوا ہے۔ اس سے سرمایہ کار کو نئے تعمیراتی منصوبوں میں بہت منافع دکھائی دے رہا ہے۔'' ہم نے آج پہلے دن ہی دو ارب روپے کی سرمایہ کاری کا آرڈر فائنل کیا ہے۔سرمایہ کاروں کو یہ ساری سہولتیں عام آدمی کے لیے ہی مل رہی ہیں۔ تعمیراتی انڈسٹری کے چلنے سے سیمنٹ، شیشہ، لکڑی، اینٹیں، بجلی اور سینٹری سمیت تقریبا چالیس سے زائد صنعتوں سے وابستہ مزدوروں، کاریگروں، انجنئیرز اور دیگر ہنرمندوں کو فائدہ ہوگا اور عام آدمی کے لیے بھی مناسب بجٹ میں رہائش حاصل کرنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔‘‘

تعمیراتی شعبے پر کورونا کے اثرات

املاک ڈاٹ کام کے سی ای او کے مطابق پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کواگلے کچھ عرصےتک کورونا کا خوف تو رہے گا لیکن یہ ایک عارضی دور ہوگا، اس کے بعد لوگ رمضان کی مصروفیات میں لگ جائیں گے جب کہ اصل کاروباری سرگرمیاں عید کے فورا بعد شروع ہو سکیں گی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے عالمی اثرات کی وجہ سے اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے انوسٹمنٹ کے امکانات زیادہ نہیں ہیں البتہ متحدہ عرب امارات میں کساد بازاری کی وجہ سے بڑی تعداد میں وطن واپس لوٹنے والے پاکستانی اگر اپنے گھر بناتے ہیں تو اس وجہ سے بھی مارکیٹ میں بہتری ہو سکتی ہے۔

کورونا وائرس: اسپین میں ضرورت مندوں کو راشن فراہم کرتے پاکستانی

رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں پر کیا اثرات ہوں گے؟

شاہنواز یعقوب بتاتے ہیں کہ کنسٹرکشن انڈسٹری کے پیکج میں سامنے آنے والی ایمنسٹی کی وجہ سے اگلے مہینوں میں پلاٹوں کی خرید وفروخت شروع ہونے سے رہاشی اسکیموں کی ایسی آبادیوں میں پلاٹوں کے ریٹس بڑھ جائیں گے جہاں پر پلاٹنگ ہو چکی ہے اور مالکان کے پاس قبضہ ہے۔ ان کے بقول اب سرمایہ کاروں کی طرف سے ورٹیکل پراجیکٹس یعنی بلند و بالا کمرشل تعمیراتی منصوبوں میں بھی دلچسپی لی جا رہی ہے، اس میں بھی منافع کافی ہے۔ ان کے بقول بڑے پیمانے پر سرگرمیاں شروع ہونے پر تعمیراتی مواد کی قیمتوں میں کمی ہو گی اور مکان بنانے کی لاگت میں پندرہ سے بیس فی صد کمی آنے کا امکان ہے۔

بیوروکریسی اور حزب اختلاف کا رویہ بھی اہم ہے

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایک تعمیراتی ادارے ہوم ماسٹر کے سی ای او شیخ شاہد محمود نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کے ریلیف پیکج کو کامیاب بنانے کے لیے سرمایہ کار کے خوف کو دور کرکے اس کا اعتماد بڑھانا ہوگا۔ اس ضمن میں پاکستان کی بیوروکریسی کا کردار بھی اہم ہے۔ اگر وزیراعظم کی طرف سے ملنے والی مراعات سرخ فیتے کی نذر ہو گئیں تو اس سے اس اچھی پالیسی کے ثمرات ضائع بھی ہو سکتے ہیں۔محمود نے کہا، ''اسی طرح پاکستان کی حزب اختلاف کو بھی معاشی معاملات کے حوالے سے ملک کے کاروباری حلقوں میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال کو ختم کرنے مدد دینا ہوگی۔ ‘‘